چائنہ کے ون بیلٹ ون روڈ ویژن کے چھ مجوزہ پراجیکٹس کے سیٹس میں سے ایک میگا پراجیکٹس کا سیٹ چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور ہے۔ اس منصوبے کے اعلان کے بعد چائنہ کے ریجنل طاقت سے عالمی طاقت بننے کے سفر میں پاکستان کا کردار مرکزی اور انتھائی اہمیت کا حامل بن چکا ہے۔اس ویژن کے تحت وسیع و عریض معاشی سفر میں بندرگاہوں ، زمینی راہداریوں ریلوے لائنز ، کا کردار کلیدی ہے اور سی پیک پراجیکٹ میں گوادر کی گہری بندرگاہ کا کردار انتھائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس گوادر پورٹ سے ہی چائنہ مختلف ریجن کیساتھ اپنے تجارتی روابط اور منازل کو بڑھا بڑھا سکتا ہے۔چائنہ نے پاکستان میں مختلف شعبہ جات میں پاکستان چائنہ اکنامک کاریڈو کے جھنڈے تلے ایک بہت بڑی انویسٹمنٹ کا اعلان کیا جس میں سے موٹر ویز اور ا توانائی کے شعبے میں کئی منصوبے مکمل ہو چکے ہیں اور پاکستان توانائی کے شعبے میں خود کفالت کی طرف گامزن ہو چکا ہے اسکے علاوہ ایک اہم منصوبہ ریلوے لائنز کا بھی ہے جس میں چائنہ کو گوادر سے بزریعہ ریل لائن ملانا ہے کیونکہ ریلوے لائن جدید دنیا میں سب سے تیز ترین سفری ذریعہ مانا جاتا ہے اور روڈز کی نسبت زیادہ وزن کم وقت میں ترسیل کیا جا سکتا ہے لہذا دونوں ممالک نے ریلوے کے اپ گریڈ کرنے کا بھی فیصلہ کیا
اس سلسلے میں سب سے اہم ریلوے لائن مین لائن ون ہے جو کراچی سے شروع ہو کر پشاور تک جاتی ہے اور پاکستان کی 75 فیصد۔ تجارتی اور سفری ضروریات اسی لائین کے ذریعے پوری کی جاتی ہے۔ یہ مین لائن کراچی سے شروع ہوتی ہے اور حیدر آباد ، نواب شاہ ، روہڑی، رحیم یار خان ،بہاولپور ،خانیوال،ساہیوال ،لاہور، گجرات، راولپنڈی سے ہوتے ہوئے پشاور تک جاتی ہے یہ ٹریک 1733کلو میٹر پر محیط ہے۔ اس ٹریک پر ٹرین چلنے کی موجودہ سپیڈ 65-105کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔اس ٹریک کی بحالی اور توسیع کا منصوبہ نہایت اہمیت کا حامل ہےاس بحالی اور توسیع پروگرام کے تحت اس لائن کو ڈبل کرنا ہے اور پوری لائن کو جدید سگنل اور کمیونکیشن سسٹم± سے آراستہ کرنا ہے اور راستے میں جتنے بھی رکاوٹ ہے انکو فلائی اوور یا انڈر پاس سے کور کرنا ہے تاکہ رکاوٹوں سے چھٹکارا حاصل کر کہ سپیڈ بڑھائی جا سکے اور ایک اندازے کے مطابق اسکی سپیڈ موجودہ سپیڈ سے ڈبل ہو جائے گی جو کہ 160-180کلو میٹر فی گھنٹہ ہو گی اور اس کے علاوہ لاہور کے مقام پر والٹن ٹریننگ اکیڈمی کو بھی قائم کیا جائے گا حویلیاں کے مقام پرڈرائی۔پورٹ کا قیام بھی منصوبے کا حصہ ہے اور اس پروجیکٹ کا تخمین شروع میں 8 بلین ڈالرلگایا گیا تھا جبکہ اس میں سے 5.5بلین چائنہ اور 2.5بلئن ایشین ڈویلپمنٹ بنک نے دینا تھا
سابقہ دور میں مختلف وجوہات کی وجہ سے یہ منصوبہ شروع نہ کیا جا سکا اور چائنہ بھی خاص فنانسگ پلان نہ ہونے کیوجہ سے ہچکچاہٹ کا شکار رہا۔
لیکن اب پاکستانی وزیر اعظم کے اعلی سطح کے وفد کیساتھ چائنہ کے دورہ میں ایم ایل ون منصوبہ جلد شروع کرنے کا اعلان کیا گیاہے جو کہ دونوں ممالک کے لئے خوش آئند بات ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ ون بیلٹ ون۔ روڈ پراجیکٹ کے تمام مجوزہ راہداریاں ابھی تک صرف چائنہ کی خواہش پر مشتمل ہے لیکن چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور واحد منصوبہ ہے جو اپنی تکمیل کی جناب گامزن ہے اور پوری دنیا کی نظریں اس منصوبے پر لگی ہوئی ہے اس منصبوبے کی کامیاب تکمیل اور بھر پور فوائد حاصل کرنے کے لئے مین لائن ون ریلوے لائن پراجکیٹ انتھائی اہمیت کا حامل ہے
گوادر کو کاشغر کیساتھ ٹرین لائن کے زریعے ملانے سے چائنہ اور مڈل ایسٹ کے درمیان آئل کی ٹرانسپورٹ کا سب سے آسان اور محفوظ راستہ مل جائے گا جس سے چائنہ کو سفری اخراجات کی بچت ہو گی۔
اسکے علاوہ ریلوے لائن کی اپ گریڈ یشن سے پاکستان کی عوام کو تیز ترین سفری سہولیات میسر ہو گی اور اسکے علاوہ خام مال کو سپیشل اکنامک زون تک لانے اور تیار شدہ مال کی اندرون ملک اور گوادر بندرگاہ تک تیز ترین ترسیل جیسے تجارتی فوائد بھی حاصل ہو گے مگر ساتھ ساتھ اس ریل کے زریعے پاور پلانٹس کو ایندھن کے لئے کوئلہ کی ترسیل بھی ہو گی جس سے ریلوے کو اچھا خاصہ ریو نیو بھی حاصل ہو گا اس کی موجودہ مثال ساہیوال کول۔ پور پلانٹ کو روزانہ پانچ ٹرین جوکہ ہر ٹرین چالیس مال بردار گاریوں پر مشتمل ہوتی ہے اور ہر ایک گاڑی میں تقریباً ساٹھ ٹن کوئلہ ہوتاہے سپلائی کیا جارہا اور اس طرح روزانہ پاکستان ریلوے کو ملینز کا ریونیو مل رہا ہے اور ایم ایل ون منصوبہ پاکستان کی معاشی،تجارتی اور سیاحتی سرگرمیوں کو دوام بخشے گا۔ایک محتاط اندازے کے مطابق اس منصوبے سے 24000 نئی نوکریوں پیدا ہو گی
اس منصوبے کی فزیبلیٹی رپورٹ اب تک مکمل ہے اور چھٹی جے سی سی JCC میٹنگ جو بیجنگ میں منعقد ہوئی اس میں اس منصوبے کو سٹریٹجک ڈیکلئر کر دیا گیا تھا اور سب سے پہلے فریم ورک معاہدہ پندرہ مئی 2017کو وزیر اعظم کے دورہ چین میں سائن ہو اسکے بعد کمرشل کنٹریکٹ بنیادی ڈیزائن بھی سائن ہوا اس معاہدہ کے تحت یہ تین پیکجز میں مکمل ہو گا اس منصوبے کا پی سی ون پندرہ اگست 2020 میں اپروو کیا گیا۔یہ منصوبہ پانچ سے چھ سال کی مدت میں پورا ہو نا تھا اور درمیان کے عرصے میں جیکب آباد سے گوادر کی توسیع بھی اگلے مرحلے میں شامل ہے اس کے بعد حویلیاں سے کاشغر تک کا منصوبہ بھی شامل ہے ۔ لیکن غیر ضروری تاخیر کیوجہ سے اس تاریخی منصوبے کی لاگت دو سال میں مجموعی طور پر %45 بڑھ چکی ہے جو کہ اب تقریباً دس بلین ڈالر کے قریب پہنچ چکی ہے اور یہ لاگت تینوں پیکجز جو کہ دو ہزار تئیس سے دو ہزار اکتیس تک مکمل ہونے ہیں ، کی بڑھ چکی ہے سابقہ گورنمنٹ آئی ایم ایف اور چائینیز گورنمنٹ کو منصوبے کا کام شروع کرنے پر راضی کرنے میں ناکام رہی ریلوے حکام کا مزید یہ بھی کہنا ہے پی سی ون سے چائنیز حکام راضی نظر نہی آتے تھے اسکے علاوہ اس لاگت کے بڑھنے کی ایک اور وجہ حالیہ سیلاب ہیں جس نے ملک کے بیشتر حصوں کی ریلوے لائن کو تباہ کر کہ رکھ دیا ہے اسکے علاوہ چائنہ کو پاکستانی معاشی حالت کیوجہ سے قرض کی واپسی میں بھی خدشات لاحق تھے کیونکہ پاکستان ریلوے اس چھ بلین کو واپس کرنے کی سکت نہی رکھتا دوسری طرف آئی ایم ایف بھی اس ساری صورتحال میں مشکلات پیدا کر رہا تھا مزاکرات بھی ساتھ ساتھ چلتے رہے لیکن اس کے باوجود یہ منصوبہ تعطل کا شکار تھا۔
اس سال نئی حکومت بنتے ہی اپریل میں پاکستانی منسٹر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے چائنیز حکام سے اس بارے میں بات چیت کا دوبارہ آغاز کیا ۔جس کو اب دونوں حکومتیں شروع کرنے پر رضا مند ہو گئی ہیں جو کہ نہایت خوش آئند ہے۔تین سال پہلے پاکستان نے اس معاملہ پر سرمایہ کاری کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے مختلف میٹنگ کر کہ چائنیز حکام کو حتمی مدت اور قرض واپسی کی تفصیلات فراہم کر دی تھی اور اب چائنیز گورنمنٹ کی طرف سے جواب کا انتظار ہے ذرائع کے مطابق پاکستان کو یہ قرض پچیس سال کی مدت میں واپس کرنا ہو گا ایک اور بات یہ کہ پاکستانی ہنر مند لیبر کی روزانہ کی اجرت بھی اس وقت کافی بڑھ چکی ہے اور ایک اندازے کے مطابق یہ اجرت اب سات سو بڑھ کر اٹھارہ سو تک ہو چکی ہے اور مزدور کی لیبر جو کہ پہلے 600 تجویز کی گئی تھی اب وہ 1200 تک پہنچ چکی ہے ان سارے معاملات میں مزید دیر اس منصوبے کی لاگت میں روزبروز اضافہ کرے گی لہذا سی پیک کو اس کے فل سونگ پر لانے اور پاکستان ریلوے اور ٹرانسپورٹ انفرسٹرکچر میں انقلاب لانے کیلے یہ منصوبہ جلد از جلد تکمیل تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔
سی پیک کے تحت ایم ایل ون ریلوے منصوبہ کی اہمیت وافادیت
Nov 07, 2022