سعید آسی کیلئے لاہور پریس کلب کی خصوصی نشست


آجکل بہت کچھ بدل رہا ہے ۔ بڑی تبدیلی آ چکی ہے
 رسم قربانی ہے باقی اٹھ گیا عشق خلیل
 دوسروں پر نگاہ رکھنے والے یعنی صحافی آج کل خود نگاہوں میں ہیں ۔ حکومت اور اپوزیشن کی نگاہیں سب کو تول رہی ہیں بڑا نازک وقت ہے۔ سعید آسی روزانہ ترازو ہوتے ہیں ۔ ایک بڑے اخبار کے ادارتی صفحے کا انچارج ہونا پل صراط تو نہیں مگر اس سے ملتے جلتے پل پر سفر کرنے کے مترادف ضرور ہے اور وہ یہ سفر کئے جا رہے ہیں کیونکہ وہ اس بات کے قائل نہیں کہ۔
 کہی کسی سے نہ روداد زندگی میں نے 
 گزار دینے کی شے تھی گزار دی میں نے
 بلکہ انہوں نے جودیکھا لکھا ۔۔ جو محسوس کیا بیان کر دیا کچھ اداریوں کی شکل میں کچھ اپنے کالم بیٹھک کی صورت میں اور بہت کچھ اپنی دس گیارہ کتابوں کے ذریعے ۔ جس میں ان کے سفر ناموں اردو پنجابی شاعری اور سیاسی تجزیوں پر مبنی ان کی کتابوں آگے موڑ جدائی کا تھا ۔ جزیرہ جزیرہ ۔رمزاں ۔ کس کی لگن میں پھرتے ہو۔ سوچ سمندر ۔تیرے دکھ بھی میرے دکھ ہیں اور تیری بکل دے وچ چور اور پھر ان کی کلیات کلام سعیدکا مطالعہ کیا ہے وہ گواہی دے گا کہ سعید آسی نے جولکھا اپنے ضمیر کو آئینے کی جگہ رکھ کر لکھا ان کے خیالات اور نقطہ نظر سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر وہ علامہ اقبال کے اس شعر کو ہمیشہ سامنے رکھتے ہیں کہ
 ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
 یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کاطریق
 اپنی زندگی کے نشیب و فراز میں سعید آسی کو بہت کچھ دیکھنے سننے اور محسوس کرنے کا موقع ملا 24 اگست 1954 سے لےکر دم حاضر سیاست اور صحافت کے انگنت مناظر انکی آنکھوں میں جمع ہیں ۔ ہائی کورٹ سپریم کورٹ کی رپورٹنگ اور اسکے ساتھ اپوزیشن خاص طور پر ایم آر ڈ ی اور قومی اتحاد کی کوریج کے دوران انہو ں نے کئی بار موت کو سامنے دیکھا اسی دوران سیاست کے بہت سے کھرے اور کھوٹے سکے انکے سامنے رہے ہیں انہوں نے بارہا یہ بھی دیکھا کہ سیاسست نے کس طرح سماجی قدروں کو تہ و بالا کیا ۔ رشتے جو ایک دوسرے کا خیال رکھنے کےلئے ہوتے ہیں کس طرح ایک دوسرے کواستعمال کرتے نظر آئے ان کا سب سے بڑا دکھ شائد جون ایلیا کے اس شعر میں تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ بیان کیا جا سکتا ہے ۔
ہم بھی عجیب لوگ ہیں اتنے عجیب ہیں کہ بس 
 خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں 
 میں نے 1976 میں نوائے وقت جائن کیا اور 1981میں میگزین سیکشن کا انچارج تھا جب سعید آسی کو نوائے وقت جائن کرنے کی آفر ہوئی اس طرح میں ان کی وہ جوانی جوبن اور جوش و خروش کام سے عشق اور خطرات کا سامنا کرتے انتہائی جبر کے عالم میں ۔
 قارئین تک سچی اور اندر کی خبریں پہنچانے کا جنون ایک مدت تک دیکھا ہے۔ آج بھی صحافت اور صحافیوں پر جبر کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن یہ جبر اور طرح کا ہے ان دنوں جبر کی ایک اضافی صورت بھی تھی محنت اور دلیری سے لائی گئی خبر کتابت کے بعد اور کاپی پیسٹ ہو جانے کے بعد چھپنے سے پہلے اگر محکمہ اطلاعات کے دفتر میں ایک کلرک کے ہاتھ سے خطرناک کیڑے کی طرح اکھاڑ کر پھینک دی جائے اور اگلے روز اخبار کا وہ حصہ خالی ہو تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ خبر لانے والے رپورٹر پر کیا بیتتی ہوگی ۔ جی ہاں ان دنوں ایسا ہوتا رہا اور سعید آسی کی خبروں کے ساتھ بارہا ایسا ہوا۔
 سعید آسی ہمیشہ اپنے پروفیشن کے حوالے سے متحرک رہے ہیں ۔ خانہ بدوش پریس کلبوں اور صحافیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کےلئے ان کا کردار اب تاریخ کا حصہ ہے۔ پریس کلب کے مستقل ٹھکانے کے لئے تو وہ اس طرح وقت دیتے تھے کہ کئی بار اپنے ٹھکانے پر جانے کا وقت نہیں بچتا تھا ۔ آج کے شاندار اور باوقار پریس کلب سے لے کر صحافی کالونی کے خواب کی عملی تعبیر تک ہر محاذ پر اگر سعید آسی ہراول دستے میں سب سے آگے دکھائی دیتے رہے ہیں تو اسکے پس منظر میں گھر کے بزرگوں کی دعاﺅں کے ساتھ پاک پتن کی جلال اور جمال اور جذب و مستی والی مٹی کی خوشبو کا اعجاز بھی شامل ہے جس نے انہیں۔ ہیں وہی لوگ جہاں میںاچھے۔ آتے ہیں جو کام دوسروں کے، کے مصداق اچھے لوگوں کی صف میں شامل ہونے کی ہمت اور حوصلہ دیا ۔ عوامی سطح پر سبزہ زار کی مذبح خانہ جیسی بستی کو واقعی سبزا زار میں بدلنے کی عدالتی جنگ ہو یا مثبت انداز میں ٹریڈ یونین کے محاز پر پی ایف یو جے کو سرگرم رکھنا ہو سعید آسی ہر مورچے میں دکھائی دیتے رہے ہیں وہ اس بات کے قائل ہیں کہ عملی زندگی میں وفا کے سفر میں حق کےلئے جدوجہد میں بیشک بال سفید ہو جائیں لیکن خون سفید نہیں ہونا چاہئیے ۔شائد میں غلطی پر ہوں لیکن مجھے ایسے لگتا ہے کہ علاقائی معاملات ہوں یا قومی سعید آسی بیشتر خرابیوں کا ذمہ دار باہر کے عوامل سے زیادہ اندر کے عناصر کو سمجھتے ہیں اور مولانا ظفر علی خان کے اس شعر سے متفق ہیں کہ 
میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ 
 خود دکھایا ہے مرے گھر کے چراغاں نے مجھے 
گذشتہ دنوں لاہور پریس کلب نے اپنی لٹریری کمیٹی کے پلیٹ فارم پر سعید آسی کے اعزاز میں ایک یاد گار تقریب کا اہتمام کیا، تقریباً تین گھنٹے تک جاری رہنے والی اس نشست میں سینئیر صحافیوں ،دانشورں ، فنکاروں اور قانون دانوں نے سعید آسی کی شخصیت کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی جبکہ سعید آسی نے اپنی اردو، پنجابی شاعری کے ذریعے محفل لوٹی۔ لاہور پریس کلب کے صد اعظم چوہدری سیکرٹری عبدالمجید ساجد اور لٹریری کلب کی انتظامیہ طارق کامران اور احباب نے ادب و صحافت کے ان دوستوں کی پیشہ ورانہ خدمات کے اعتراف کیلئے جو ابھی غازی ہیں تقریبات منعقد کر کے قابل قدر روائت قائم کی ہے کیونکہ عام طور پر ایسا اس وقت کیا جاتا ہے جب ممدوح شہید ہو چکا ہو۔ اللہ کرے یہ روائت قائم رہے۔

ای پیپر دی نیشن