محمد رمضان چشتی
غزہ کے نہتے، بے بس، مجبور اور محصور فلسطینیوں پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری، زمینی اور فضائی حملے جاری ہیں جس کے نتیجہ میں تقریباً دس ہزار فلسطینی شہید اور35 ہزار شدید زخمی ہو چکے ہیں، صرف چوبیس گھنٹے میں پناہ گزین کیمپوں اور اقوام متحدہ کے سکول کو بھی نشانہ بنایاگیا۔ جس میں80 خواتین سمیت تین سو فلسطینی شہید ہوئے۔ اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والے فلسطینی بچوں کی تعداد تین ہزار سات سو سے بڑھ چکی ہے۔ اسرائیل کی فاسفورس بمبوں کے حملوں اور بمباری سے غزہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے، ہسپتال، سکول، مساجد، مارکیٹیں، گھر، کارخانے، فیکٹریاں سب زمین بوس ہو چکے ہیں جن کے ملبے تلے سینکڑوں افراد شہید یا زخموں سے چور مدد کے لئے پکار رہے ہیں اور ان کے لاشے نکالنے اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچانا بھی ممکن نہیں رہا کیونکہ ہسپتال بھی تباہ ہو چکے ہیں وہاں طبی امداد میسر نہیں اور نعشیںبھی رکھی نہیں جا سکتیں۔ جس کی وجہ سے آبادیوں میں تعفن پھیل رہا ہے۔
امریکی امداد پر پلنے اور انحصار کرنے والے ممالک بھلا امریکہ کے خلاف کیسے جا سکتے ہیں۔ امریکہ پر اسرائیلی شہری کو سالانہ پانچ سو ڈالر کی امداد فراہم کرتا ہے جبکہ یہی امداد سالانہ ہر پاکستانی کو پانچ ڈالر فی کس ملتی ہے۔ یہ امریکی امداد قرضے نہیں بلکہ گرانٹس کہلاتی ہے۔ پاکستان اپنے قیام کے بعد سے ہی امریکی امداد پر انحصار کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ جبکہ اس نے مختلف معاہدوں کے تحت بھی ہمیں اپنے جال میں جکڑ رکھا ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی ہر سطح پرامداد کرنے والے امریکہ نے پارلیمنٹ میں اسرائیل کے لئے14.5 ارب ڈالر کی فوجی امداد بھی منظور کر لی ہے جبکہ اس کے فوجی بیڑے بھی اسرائیل کو بے گناہ فلسطینیوں کی نسل کشی میں ہر ممکن امداد فراہم کرنے کے لئے موجود ہیں۔
اس وقت باون اسلامی ممالک کے پونے دو ارب مسلمان ایک ماہ سے بیس، پچیس لاکھ محصور فلسطینیوں کواسرائیلی وحشت و درندگی کا نشانہ بناتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، محض اجلاس اور بیانات اسرائیلی درندگی کا مقابلہ کرنے کے لئے کافی نہیں، نگران پاکستانی حکومت اور بڑی سیاسی جماعتوں کا محتاط رویہ بھی قوم کے سامنے ہے، پاکستانی قوم روز اول سے مسئلہ کشمیر کی طرح فلسطینی بھائیوں کی بھی وکیل رہی ہے اور پاکستان نے دباﺅ کے باوجود تاحال اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا، قوم اس وقت سخت درد و غم میں مبتلا ہے، قارئین نوائے وقت ڈاکٹر شاہد استقلال، ارشد حسن، علی رضا، مرتضیٰ خان، بشارت علی، شیخ علامہ محمد اشرف مولا محمد سعید خان صافی، صوبیہ کاشف، راحت افشاں اور خالق چشتی نے مظلوم فلسطینی بھائیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں کہاں محو خواب ہیں اقوام عالم کو انسانیت کا درس دینے والے کہاں ہیں، جانوروں اور پرندوں کی جان اور ان کے حقوق کی حفاظت کے لئے مہم چلانے اور چندہ جمع کرنے والوں کے لبوں پربھی قفل لگ چکے ہیں۔ قارئین کرام نے نہایت دکھ سے کہاکہ سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک کی بے حسی اور معصوم فلسطینی بچوں کے خود آلود لاشے اور کفن دیکھ کر اُمت مسلمہ خون کے آنسو رو رہی ہے ہم سے اچھے تو وہ غیر مسلم ہیں جو امریکی برطانیہ، فرانس، جاپان اور دیگر ممالک میں ہزاروں کی تعداد میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں اور ہم محتاط انداز اور مصلحت انگیزی کے ساتھ دبے لفظوں میں مذمت کر رہے ہیں۔
قارئین کرام نے کہاکہ فلسطینی بچوں، غمزدہ ماﺅں اور باپوں کی جگر خراش ویڈیوز سامنے آ رہی ہیں جو کسی بھی صاحب اولاد اور درد دل رکھنے والے کو رلانے کے لئے کافی ہیں کیا مسلم حکمرانوں کے دلوں پر مہریں لگ چکی ہیں؟ ایک فلسطینی ماں ہاتھ اٹھا کر رو رو کر فریاد کررہی تھی کہ میں روزمحشر اللہ تعالیٰ سے مسلم حکمرانوں کی شکایت کروں گی۔ مسلمان شروع سے ہی مال و زر کے لالچ میں مبتلا ہے، غزوہ احد میں بھی مال غنیمت کے لئے اپنی مقررہ جگہوں سے ہٹ گئے تھے اور مسلمانوں کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ میدان کربلا میں بھی حاکم وقت کی خوشنودی کے لئے نواسہ رسول اور اس کے خانوادے کو تپتی ریت پر پیاسا شہید کر دیا جاتا ہے۔
آج غزہ کی کرب و بلا ہمیں پکار رہی ہے، کیا ہم اس کی پکار پر کان دھریں گے، صرف اسرائیل اور یہودیوں کو گالیاں اور بددعائیں دینے سے کام نہیں چلے گا مسلمانوں کو متحد ہو کر اور مضبوط بن کر اسرائیل کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ ابھی تو امریکہ، برطانیہ جنگ بندی کی مخالفت کر رہے ہیں۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید کیا جا سکے اور ان کے مقبوضہ علاقوں پر مزید یہودی بستیاں آباد کی جا سکیں، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو پچاس لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو عرب ہمسائیہ ممالک مصر اور اردن میں دھکیلنے اور تمام ارض مقدس فلسطین پر ایک مکمل یہودی ریاست قائم کرنے کی دھمکی دے چکا ہے جس کی ابتدا غزہ کے انسانی المیہ سے ہو چکی ہے۔ اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کی ہٹ دھرمی سے فلسطین کا تنازعہ حل ہوتا نظر نہیں آ رہا اور اس کے لئے مسلم امہ کا اتحاد اور اقوام متحدہ کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے تاکہ آزاد فلسطینی ریاست قائم کی جا سکے اور اسرائیل سے مقبوضہ علاقے وگزار کرائے جا سکیں اور خطے میں آگ کے بھڑکتے شعلوں کو بھجایا جا سکے۔