مقابل نہیں متبادل تو ہے

دیکھ لیجئے گا الیکشن نہیں ہوں گے۔ نگران سیٹ اپ طویل چلے گا۔ کم سے کم دو سال تک تو انتخابات کو بھول جائیں۔ نہ جانے کیا کیا چورن بیچا گیا۔ اس سے پہلے بھی کچھ ایسا ہی کہا جاتا رہا اسمبلیوں کی مدت بڑھادی جائے گی۔ایک سال تک توسیع کی تو آئین میں بھی گنجائش نکلتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسمبلیاں تو وقت سے پہلے ہی تحلیل کردی گئیں۔ انتخابات بھی شاید نوے روز کی مدت میں ہو ہی جاتے لیکن نئی مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں کا معاملہ آگیا تو دو ڈھائی ماہ کی تاخیر کی توقع تھی ہی۔ مطلب سب کچھ ویسا بالکل نہیں ہوا جیسا کہا جارہا تھا یا یوں کہنا چاہئے جیسا سودا بیچا جارہا تھا۔ 
سودا بیچنے کی اصطلاح یہاں اس لئے استعمال کی جارہی ہے کہ جانتے بوجھتے خراب مال بیچنے والے دکاندار اور جانتے بوجھتے کسی فائدے یا ایجنڈے کے تحت غلط تجزیہ بیچنے والوں میں فرق تو کوئی نہیں۔ تو تجزیے غلط ثابت ہوگئے اور بات راجا ریاض والی درست ثابت ہوئی جو شروع دن سے کہہ رہے تھے کہ انتخابات فروری کے وسط میں ہوجائیں گے۔ یہ کوئی ایسی مشکل پیشگوئی بھی نہیں تھی۔ نئی مردم شماری کی منظوری کے بعد نئی حلقہ بندیاں ہونا بھی ضروری تھیں جس کیلئے قانون کے تجت تین ماہ کا وقت درکار تھا پھر دو ماہ الیکشن شیڈول کےاور وسط فروری سے آگے تو معاملہ جابھی نہیں سکتا تھا کیوں کہ مارچ میں سینیٹ کی آدھی نشستوں پر بھی انتخاب ہونا ہے اور اس سے پہلے اس کا الیکٹورل کالج یعنی قومی اور صوبائی اسمبلیاں وجود میں آجانی ضروری تھیں تو اس سادہ سے معاملے کو ہم کیا کیا رنگ دے کر کیا کیا تجزیے دیتے چلے آئے، بحرحال بات الیکشن کی ہے تو ایک شرارتی پوسٹ جو سوشل میڈیا پر کافی وائرل رہی کہ پاکستان میں انتخابات کب ہوں گے یہ تو معلوم نہیں لیکن رزلٹ کیا آئیگا یہ سب کو معلوم ہے۔ بات بڑی حد تک درست بھی ہے اور وجہ کچھ اور نہیں بلکہ سیاسی حالات ہیں۔ اب تو خیر انتخابات کی تاریخ آچکی ہے باقی البتہ بات ویسی ہی دکھائی دیتی ہے۔ 
تحریک انصاف جو اپنی حکومت کے آخری مہنیوں میں مقبولیت کی کم ترین سطح پر تھی حکومت جانے کے بعد مقبولیت کی بلند ترین سطح پر جاپہنچی لیکن نو مئی نے تو سب بدل دیا مقبول ترین پارٹی ملکی تاریخ کی کمزور ترین جماعت ثابت ہوئی اور شاید ہی کوئی جماعت مشکل وقت آنے پر اتنی جلدی تتر بتر ہوئی ہو جیسے سب نے پی ٹی آئی کو ہوتے دیکھا۔ بڑے بڑے اور بڑا بڑا بولنے والے راتوں رات وہ بولنے لگے جو کسی کو توقع نہ تھی۔ اور اب صورتحال یہ بن چکی ہے کہ عمران خان تو انتخابات میں کہیں دکھائی نہیں دیتے لیکن ان کی جماعت ہوگی یا نہیں،یا ہوگی تو کتنی طاقت کے ساتھ، اس پر بھی ابھی تک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اگر وہ لیول پلیئنگ فیلڈ جس کی بات کی جاتی ہے یا مطالبہ کیا جاتا ہے یعنی سب جماعتوں کو ایک جیسا میدان ملے تو پھر الیکشن یقینا نواز شریف بمقابلہ عمران خان ہوگا بصورت دیگر نواز شریف بمقابلہ نواز شریف ہی ہے اور لگتا بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ مائنس عمران خان کوئی بھی ایسی سیاسی شخصیت نہیں جو نواز شریف کے مقابلے میں آئے۔ اس کی ایک بڑی وجہ پنجاب ہے جہاں پی ٹی آئی کے سوا کوئی جماعت ایسی نہیں جو ن لیگ کی سیاسی طاقت کا مقابلہ کر سکے اور قومی اسمبلی کی نصف سے زائد نشستوں والے پنجاب کو جیتنے کا مطلب اسلام آباد جیتنا ہے اور دیگر جماعتیں بھی بظاہر ذہنی طور پر یہ تسلیم کر چکی ہیں۔ باقی بات رہی ن لیگ کی تو سولہ ماہ کی حکومت نے اس کی مقبولیت کو اس جگہ پہنچا دیا تھا جہاں ان کے اپنے لوگ پریشان تھے کہ عوام کا سامنا کیسے کریں گے اور نواز شریف ان کی واحد امید اور سہارا تھے وہ وطن واپس آئیں سب کو اپنے دور کی ترقی یاد دلائیں اور پھر وہ ترقی کا دور واپس لانے کی امید دلا کر حمایت مانگیں۔ بظاہر اس وقت کسی جماعت کے پاس عوام کو دکھانے کیلئے کچھ نہیں، پی ٹی آئی کا اپنا دور کسی بھی طرح مثالی نہیں تھا اور باقی تمام جماعتیں پی ڈی ایم دور کے مشکل فیصلوں کے سیاسی بوجھ سے نکل نہیں پارہی تھیں تو ن لیگ کے پاس 2017ءکے دور کی ترقی اور بہتر معاشی حالات کا بیانیہ بظاہر کارگر ثابت ہورہا ہے اور ن لیگ کو الیکشن میں جو بھی فائدہ ہوا وہ اسی بیانیے سے ہوگا۔ تو سیاسی حالات جس طرف جارہے ہیں محسوس تو یہی ہوتا ہے کہ ملک کی اگلی وزرات عظمی کی دوڑ میں صرف ایک ہی گھوڑا ہے۔ لیکن یاد رکھیں نواز شریف ابھی تک انتخابات میں حصہ لینے کیلئے نااہل ہیں انکی سزائیں ختم نہیں ہوئیں تو جب وہ الیکشن ہی نہیں لڑ سکتے تو وزیراعظم کیسے بن سکتے ہیں۔ ان کی جماعت تو یقین کی حد تک پر امید ہے کہ جلد سزائیں اور نااہلی ختم ہوجائے گی لیکن ایسا نہیں ہوتا تو؟۔ 
یہ ایک بڑا سوال ہے جس کا جواب شاید ن لیگ جانتے ہوئے بھی نہیں دینا چاہتی کیونکہ وہ نواز شریف کا متبادل رکھنا ہی نہیں چاہتے۔ پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکومت عوام پر بھاری گزری۔ ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے عوام کو دیوالیہ کردیا گیا لیکن اس دور میں وزیر اعظم سے عوام کے سوا سب مطمئن تھے۔ اتحادی جماعتیں اور طاقتور حلقے بھی ،تو یہ بات درست ہے کہ وزارت عظمی کیلئے اس وقت نواز شریف کا بظاہر کوئی مقابل نہیں لیکن متبادل ضرور موجود ہے اور وہ بھی گھر میں۔

ای پیپر دی نیشن