”تذکرہ ‘ خُلد آشیانی ، آغا حامد علی شاہ موسوی“ (1)

معزز قارئین ! اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا کہ ”25 جولائی کی رات ”تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ“ کے سربراہ، آغا حامد علی شاہ صاحب موسوی بھی خ±لد آشیانی ہو گئے تھے اور ا±نہیں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں مرکزی امام بار گاہ G-9-4 اسلام آباد میں سپرد خاک کردِیا گیا اور 29 اکتوبر 2022ءکو حضرت موسوی صاحب کا ”علی مسجد“ راولپنڈی ہی میں چہلم تھا اور مجلس عزا اور ماتم حسینؓ بھی۔ لیکن مَیں اکثر اپنے ماضی کی کچھ کہانی ضرور بیان کرتا ہ±وں کہ ” مَیں نے 1956ء میں شاعری شروع کی اور 1960ءمیں مسلک صحافت اختیار کِیا۔ 
مجھے کئی بار اپنے روزنامہ ”سیاست“ کے ایڈیٹر اور مختلف قومی اخبارات کے کالم نویس کی حیثیت سے پاکستان کے کئی صدور اور وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے ر±کن کی حیثیت سے آدھی د±نیا کی سیر کرنے کا موقع ملا۔ اور ”حاصل زندگی“ یہ ہے کہ ستمبر 1991ءمیں مجھے روزنامہ ”نوائے وقت“ کے کالم نویس کی حیثیت سے صدر غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے ر±کن کی حیثیت سے ا±ن کے ساتھ خانہ کعبہ کے اندر داخل ہونے کی سعادت حاصل ہ±وئی۔ 
” اکابرین /کارکنانِ تحریک پاکستان !"
 تحریک پاکستان کے دَوران سِکھ ریاستوں نابھہ اور پٹیالہ اور ضلع امرتسر میں ہمارے خاندان کے 26 افراد سِکھوں سے لڑتے ہ±وئے شہید ہ±وئے تھے۔ مجھے اپنے والد صاحب ، تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان کے طفیل بہت سے ”اکابرین و کارکنان تحریکِ پاکستان “ سے رابطہ اور دوستی ہ±وئی۔ وہاں تحریک پاکستان کے کئی بڑے اکابرین سے ملاقات ہ±وئی لیکن، وہاں تحریک پاکستان کے دو (گولڈ میڈلسٹ) کارکنان ، لاہور کے مرزا شجاع ا±لدّین بیگ امرتسری ( موجودہ چیئرمین پیمراپروفیسر محمد سلیم بیگ کے والد صاحب) اور پاکپتن شریف کے چودھری محمد اکرم طور (”نوائے وقت “ کے سعید آسی صاحب کے والد صاحب) سے بھی میری دوستی ہوگئی۔ مَیں سوچتا ہ±وں کہ ” اگر پروفیسر محمد سلیم بیگ کا تعلق انفارمیشن گروپ سے نہ ہوتا اور عزیز گرامی سعید آسی ، صحافی اور شاعر نہ ہوتے تو، شاید ا±ن سے میری دوستی نہیں ہوسکتی تھی۔ 
” مولانا عبدا±لستار خان نیازی!“
عیسیٰ خیل ضلع میانوالی کے، مولانا عبدا±لستار خان نیازی (تحریک پاکستان کے گولڈ میڈلسٹ کارکن) 1937ءمیں ”پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن“ کے بانی صدر تھے۔ ا±ن کا میانوالی سے سرگودھا ، سرگودھا سے لاہور آنا جانا رہتا تھا۔ اِن سبھی شہروں میں ا±ن کی بہت ہی عزّت کی جاتی تھی۔ قاضی م±رید احمد صاحب نے مجھے ا±ن سے متعارف کرایا تھا ، پھر میری ا±ن سے نیاز مندی ہو گئی۔ صدارتی انتخاب کے دَوران مولانا عبدا±لستار خان نیازی نے کئی شہروں میں مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح کے جلسہ ہائے عام سے خطاب کِیا اور ا±نہوں نے اعلان کِیا کہ ”مادرِ ملّت سانحہ کربلا کے بعد ا±سوہ حضرت زینب کی پیروی کر رہی ہیں۔ ا±س کے بعد تقریباً سبھی مادرِ ملّت کی ہمنوا سیاسی جماعتوں کے مقررین نے اپنے اپنے جلسوں میں یہی موقف اختیار کِیا اور مَیں بھی اپنے کالموں میں یہی موقف اختیار کئے ہ±وئے ہ±وں۔
 معزز قارئین! مَیں مولانا عبدا±لستار خان نیازی کے وِصال تک ا±ن کے سیاسی مخالفین کی ہر حرکت کا محاسبہ کرتا رہا ہ±وں۔ 
” راولپنڈی کے حقیقی درویش !“
معزز قارئین ! محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَور میں قومی اخبارات میں خبر شائع ہ±وئی کہ ”وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے سپریم شیعہ علماءبورڈ کے سرپرست، قائد ِ ملّت جعفریہ، آغا حامد علی شاہ صاحب موسوی کو ملاقات کے لئے وزیراعظم ہاﺅس میں مدّعو کِیا تھا لیکن، ا±نہوں نے معذرت کرلی تھی اور یہ جواب بھجوایا تھا کہ ”مَیں حکمرانوں سے ملاقات نہیں کرتا!‘
چند دِن بعد اخبارات میں پھر خبر شائع ہ±وئی کہ ”وزیراعظم بے نظیر بھٹو بغیر کسی پروٹوکول کے آغا حامد علی شاہ صاحب موسوی سے ملاقات کے لئے ”علی مسجد“ پہنچ گئی تھیں لیکن، مسجد کے منتظمین نے وزیراعظم صاحبہ سے کہا کہ ” آغا جی خواتین سے ملاقات نہیں کرتے ، آپ مسجد سے ملحقہ ا±ن کے گھر جا کر ا±ن کی اہلیہ محترمہ سے د±عائیں لے سکتی ہیں۔ 
” پہلی ملاقات !“
معزز قارئین ! چند دِن بعد مَیں نے لاہور سے راولپنڈی آ کر اپنے ایک سرگودھوی صحافی دوست سیّد رضا کاظمی کی وساطت سے آغا حامد علی شاہ صاحب سے ملاقات کی۔ بڑی تفصیلی ملاقات ہ±وئی اور مَیں نے اپنے روزنامہ ”سیاست“ لاہور میں ا±ن کا انٹرویو شائع کِیا اور روزنامہ ” نوائے وقت “ میں کالم بھی۔ آغا جی نے سب سے پہلے یہ کہاتھا کہ”2 جنوری کے صدارتی انتخاب میں ” مادرِ ملّت“ محترمہ فاطمہ جناح نے فیلڈ مارشل ، صدرِ پاکستان محمد ایوب خان کے ساتھ مقابلہ کر کے ا±سوہ حضرت زینب کی پیروی کی تھی۔آغا جی نے یہ بھی کہا تھا کہ ” میرے بزرگ ”مصّورِ پاکستان “ علاّمہ محمد اقبال اور ”بانی پاکستان“ قائداعظم محمد علی جناح کی جدوجہد کی حمایت کرتے رہے ہیں!“۔
دوسری ملاقات میں میرے دو صحافی دوست سیّد ضمیر نفیس اور ارشاد احمد بھٹی میرے ساتھ تھے تو آغا جی نے بتایا کہ”ہماری تنظیم ” تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ“ نے ایران سے کبھی کسی قسم کی امداد طلب نہیں کی اور مَیں مذہبی جماعتوں سے گذارش کِیا کرتا ہ±وں کہ وہ سیاست میں حصہ نہ لیں اور شیعہ س±نی اتحاد کو فروغ دیتے رہیں۔
 معزز قارئین! اہم بات یہ ہے کہ”آغا جی نے یہ بھی بتایا تھا کہ ”کئی بار پاکستان کے مختلف صدور اور وزرائے اعظم نے مجھے اپنے ساتھ حج یا عمرہ پر جانے کی دعوت دِی تھی، جس پر مَیں نے معذرت کرلی تھی اور کہا تھا کہ ” مَیں صاحبِ نصاب ہوتا تو، ایسا ضرور کرتا!“۔
” درویشوں کا وقت قیمتی!“ 
معزز قارئین ! میرے والد ِ مرحوم تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ ) کارکن رانا فضل محمد چوہان صاحب نے مجھے ہدایت کی تھی کہ ”درویشوں کا وقت بہت قیمتی ہوتا ہے!“۔ اِس لئے مَیں نے آغا حامد علی شاہ صاحب موسوی سے 19 جنوری 2016ءکو تیسری ملاقات کی۔ 
تیسری ملاقات میں میرے ساتھ میرا داماد معظم ریاض چودھری بھی تھا اور ا±دھر سے سیّد قمر زیدی، سیّد عباس کاظمی، کرنل (ر) سخاوت علی کاظمی اور شہاب مہدی رضوی کے علاوہ آغا صاحب کے دونوں قانون دان بیٹے سیّد محمد مرتضیٰ موسوی اور سیّد علی ر±وح العباس موسوی بھی تھے۔ آغا صاحب نے مجھے بتایا کہ۔ ”مَیں چاہتا ہ±وں کہ میرے دونوں بیٹے وکیل کی حیثیت سے علاّمہ اقبال اور قائدِاعظم کی طرح قوم کی خدمت کریں!“۔
............................(جاری ہے )۔

ای پیپر دی نیشن