گلوبل ویلج
پاکستان نوسربازوں کی جنت
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
زندگی کے آغازِ کار کے ساتھ ہی موت کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا۔ اچھائی ،برائی، نیکی ،بدی سب ساتھ ساتھ چلا۔زندگی گزرتی رہی، حالات بدلتے رہے، جدتیں آتی رہیں۔ جرائم وقوع پذیر ہونے لگے جرائم کے خاتمے کے لیے بھی کوششیں سامنے آنے لگی۔اقدامات کیے گئے ،قوانین بنائے گئے۔کسی جرم کے وقوع پذیر ہونے کے بعد ہی اس کا تدارک اور اقدامات ہوتے ہیں، قوانین بنتے ہیں، جرائم کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جرائم کو یوں سمجھ لیا جائے کہ یہ دھارا ہے،نہر یا دریا کا ٹوٹا ہوا کنارا ہے۔ پہلے یہ دھارا بہتا ہے اس کے بعد اس کو کنٹرول کرنے کی، بند باندھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دھارے کی بند ٹوٹنے کی کچھ نہ کچھ وجہ ضرور ہوتی ہے ، پانی کے بہاﺅ میں تیزی اور تندی آ گئی یا کنارا کہیں سے کمزور رہ گیا۔ مجرم بھی بڑے بڑے فلاز دیکھتے کمزوریاں دیکھتے ہیں۔ بہرحال پہلے جرم ہوتا ہے اس کے بعد اس کے تدارک کے اقدامات ہوتے ہیں۔ گویا پہل مجرم کی طرف سے کی جاتی ہے وہ جرائم کے لیے نئے سے نئے طریقے اختیار کرتا ہے۔ ان طریقوں کا تدارک کیا جاتا ہے تو وہ نئے راستے ڈھونڈ لیتا ہے۔ دنیا کے ہر کونے میں ڈکتیاں ہوتی ہیں، نوسربازیاں ہوتی ہیں، چوریاں ہوتی ہیں،ڈکیتی ہو ،چوری ہو،نوسربازی ہو ،نقب زنی ہو ،دھوکہ دہی ہو مقصد صرف ایک ہوتا ہے کہ ناجائز طریقے سے رقم اکٹھی کرنا۔ ان کاموں کے لیے آج کل جدید ذرائع استعمال ہو رہے ہیں۔جدید دور میں کرنسی نوٹ کا استعمال کم سے کم ہو چکا ہے۔ اس کی جگہ کریڈٹ کارڈ اور پلاسٹک منی یا کرنسی نے لے لی ہے۔ یورپ اور کئی دیگر مغربی ممالک میں ان کے ساتھ ساتھ عرب ممالک میں بھی جو ترقی یافتہ ہیں، کاغذ کی کرنسی کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے،سب کچھ آن لائن ہو چکا ہے۔وارداتیوں یہاں بھی نقب لگانا شروع کر دیئے ہیں۔قانون نافذ کرنے والے ادارے دنیا بھر میں ان کو کنڑول کرنے والے لوگ جرائم پر قابو پانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ ان اداروں میں اعلیٰ دماغ والے لوگ لا کر بٹھائے گئے ہیں۔مگر مجرمانہ ذہنیت کے لوگ ان سے کچھ زیادہ ہی شاطر واقع ہوئے ہیں۔ وہ جدید ٹیکنالوجی میں مزید جدتیں لا کر ایسے فراڈ کرتے ہیں کہ جرائم کا تدارک کرنے والے دیکھتے رہ جاتے ہیں جب تک وہ اس کا تدارک کرتے ہیں وہ کوئی نئی ٹیکنالوجی سوچ کر سامنے لے آتے ہیں۔دنیا میں کھربوں ڈالر کے ماہانہ ڈیجیٹل جرائم ہوتے ہیں۔اسے سائبر کرائم کے زمرے میں لایا جاتا ہے، یہ لوگ قابو کیوں نہیں آ رہے ، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جرائم کنٹرول کرنے والے ادارے اور لوگ وہ اگر کہیں کمپومائز نہیں ہوتے تو بھی کہیں اہلیت کی کمی ہے ،کہیں ان کے پاس مطلوبہ ضرورتوں کا فقدان ہے۔ پاکستان کی مثال لے لیتے ہیں یہاں پر پولیس کے پاس جو اسلحہ اور ذرائع ہیں ان کے مقابلے میں اگر آپ جرائم پیشہ افراد کو دیکھیں تو ان کے پاس جدید ترین پولیس کے مقابلے می اسلحہ اور ٹرانسپورٹ ہے۔ اور جب ان کو قانونی جنگ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے تو حکومتی وکلا کے مقابلے میں ان کے پاس کہیں زیادہ اہل ،ماہر اور پیشہ ور وکیل ہوتے ہیں۔ اگرچہ اسے ٹیکنالوجی تو نہیں کہا جا سکتا لیکن اگر ٹیکنالوجی کہہ دیا جائے تو بھی قانونی جنگ میں اپنے بچاﺅ کے لیے جو کچھ جرائم پیشہ لوگ کرتے ہیں اس کو اگر سائبر ایڈووکیشن کہہ دیا جائے تو اس معاملے میں بھی جرائم پیشہ افراد سرکاری اداروں پر برتری لیے ہوئے نظر آتے ہیں۔
میرے سامنے ایسے بہت سارے واقعات ہیں کہ کسی نمبر سے آپ کو فون آ جاتا ہے کہ ہم بڑے سرکاری دفتر سے بول رہے ہیں آپ کے اکاﺅنٹ کی جانچ پڑتال کرنی ہے۔بہت سے لوگ کسی اعتماد کی وجہ سے یا سادگی کی وجہ سے اپنا شناختی کارڈ اور اکاﺅنٹ نمبر دے دیتے ہیں۔ اور ان اکاﺅنٹس سے تھوڑی دیر کے بعد ساری کی ساری رقم نکال لی جاتی ہے۔ کچھ لوگ بڑی سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ ایسی کالوں کو درخوراعتنا نہیں سمجھتے لیکن چونکہ جرائم پیشہ عناصر کے دماغ شیطان کے ہوتے ہیں اور جدید ٹیکنالوجی کا بہترین استعمال وہ کرتے ہیں۔بینک کے جن نمبروں سے آپ کو ہمیشہ اپڈیٹ رکھا جاتا ہے آپ کی ٹرانزیکشن کی اطلاع آپ کو دی جاتی ہے۔انہی نمبروں سے فون آپ کو آتا ہے تو کچھ لوگ مطلوبہ معلومات فراہم کرتے ہیں اور مجرموں کی جرائم پیشہ ذہنیت کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ کم آمدنی والے لوگوں کو فون آ جاتا ہے بے نظیر انکم سکیم سے، آپ کے پچیس ہزار منظور ہوئے ہیں، آپ تین ہزار جمع کروا دیں۔ بس وہ تین ہزار جمع ہوتا اوراس کے بعد پھر رابطے ختم ہو جاتے ہیں۔ فلاںادارے کی طرف سے آپ کے لیے قرعہ اندازی میں گاڑی نکلی ہے، وہ آ کر لے جائیں یا ہم آپ کو پہنچا دیتے ہیں۔گاڑی پہنچانے کے لیے وہ آپ سے بیس پچیس ہزار روپے مانگیں گے۔ اس کے ساتھ رجسٹریشن کے لیے الگ سے آپ سے لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپیہ طلب کر لیتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایسے جھانسوں میںآ کر لوٹ چکے ہیں۔ آپ نے مکان، دکان یا کاروبار فروخت کرنا ہے اشتہار دیا وہ لوگ آپ کو اپنے ہاں بلا لیں گے ،وہاں پر بلیک میل کرکے آپ سے جائیداد پر سائن کروا لیں گے۔ مجھے ایک سرکاری افسر بتا رہے تھے کہ انہوں نے ایک گاڑی خریدی جو چند سو کلومیٹر چلی ہوئی تھی۔کسی مجبوری کے تحت اس کے مالک نے اسے فروخت کرنا تھا مجھے یہی بتایا گیا دوسرے چوتھے روز اسی گاڑی پر میرا بیٹاایک تقریب میں شرکت کرنے جا رہا تھاکہ سنیب چیکنگ کے دوران اس کی گاڑی روکی گئی، متعلقہ ادارے کے لوگوں کی طرف سے بتایا گیا کہ یہ گاڑی چوری کی ہے اس کا چیسی نمبر تبدیل کیا گیا ہے۔ نوجوان نے اپنے تعارف کروایا اپنے باپ سے بات کروائی۔انہوں نے نوجوان کو تو جانے دیا گاڑی وہی پر رکھ لی۔ جب میرے یہ دوست افسر وہاں پر گئے تو ان کو ساری صورتحال سے آگا ہ کیا گیا۔اور یہ بتایا کہ روزانہ پاکستان میں اسی طرح سے بارہ تیرہ نئی گاڑیاں چوری ہوتی ہیں جن کا چیسی نمبر تبدیل کرکے آگے فروخت کر دیا جاتا ہے۔ سارا کچھ ڈاکومنٹ تک اس طرح سے بدلے جاتے ہیں کہ کسی کو پتا ہی نہیں چل سکتا کہ یہ دونمبر ی ہو سکتی ہے۔شناختی کارڈ ،سارے کاغذات جعلی اصلی کی طرح بنا کر پیش کر دیئے جاتے ہیں۔ اس دوران کسی طرح بھی پتاہ نہیں چلتا کہ دو نمبری ہو رہی اور دو نمبری کرنے والے بھی پکڑے نہیں جاتے۔اس سرکاری افسر کی طرح کے اور بھی بہت سارے لوگ ہیں جن کی ساری کی ساری زندگی کی کمائی اسی طرح فراڈوں میں چلی جاتی ہے۔پاکستان سمیت دنیا بھر میں سائبرکرائم عروج پر ہے اس میں عوام کی اویئرنس کی شدید ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خصوصی طور پر پاکستان میں جس طرح ادارے کام کر رہے ہیں ان پر بھی افسوس ہی ہوتا ہے۔ یورپ اور مغربی ممالک میں ہم نے دیکھا ہے کہ ایک کرائم ہوتا ہے، آن دا روڈ بھی ہو تو دو منٹ میں پولیس پہنچ جاتی ہے۔ پاکستان میں یہ صورتحال ہے کہ بڑے بڑے شہروں میں بھی آپ ون فائیو پر کال کرتے ہیں تو پانچ منٹ بعد جا کر عموماًآپ کی بات سنی جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ چوبیس گھنٹے میں ایک یا دو بار جیسے ہی آپ کال کریں اس کا آپ کو رسپانس مل جائے۔عموماً یہ ہوتا ہے آپ کال ملاتے ہیں ایمرجنسی کی تو ڈیجیٹل محترمہ کا آپ کو بھاشن سنے کو ملتا ہے ،دن میں یہ بھاشن ایک دو بار اگرسامنے آئے تو خیر لیکن یہ ہر کال کے ساتھ ڈیجیٹل محترمہ آپ کو بولتی سنائی دیتی ہے۔ پاکستان میں کتنی ڈیجیٹل کرائم ہوتے ہیں اس کا کوئی ریکارڈ شاید دستیاب نہیں ہے۔ لیکن اگر دنیا پر نظر ڈالی جائے تو کینیڈا میں سترہ ارب ڈالر کے سالانہ جرائم ہوتے ہیں۔ امریکہ میں یہی جرائم تین گنا زیادہ ہیں، جاپان، جرمنی ، فرانس، برطانیہ ان مماک میں بھی یہی شرح ہے۔ یہ سارا کچھ اس کے باوجود ہوتا ہے کہ وہاں پر عوام میں آگاہی ہے، اویئرنس ہے،لٹریسی ریٹ وہاں پر سو فیصد ہے۔ ادارے قائم کرتے ہیں، اپنے ذمہ داری نبھاتے ہیں لیکن جیسا کہ کہا کہ جرائم پیشہ عناصر ان اداروں سے تھوڑا ساآگے جا کر سوچتے ہیں۔یہاں یہ امر بھی حیران کن ہے کہ ان مغربی ممالک میں جرائم کرنے والے اور جرائم کا شکار ہونے والے وہ تارکین وطن ہوتے ہیں، ان کا تعلق دوسرے ممالک سے ہوتا ہے۔ مقامی لوگ زیادہ تر نہ تو جرائم کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے لٹنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ بہرحال وہ بھی ل±ٹ تو جاتے ہیں لیکن ان کی تعداد بہت ہی کم ہے۔
ایک سروے کے مطابق امریکہ میں سائبرکرائمز میں ملوث ساٹھ فیصد انڈین ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ڈیجیٹل کرائم کے ذریعے بڑے بڑے ہاتھ مارے جاتے ہیں۔لیکن ہمارے ہاں عموماًیہ ہوتا ہے کہ متوسط طبقے کے لوگوں کو ،حتی کہ غریب کو بھی شکار کرنے سے مجرموں کی طرف سے گریز نہیں کیا جاتا۔یہ ایسے ہی ہے جیسے مرے کو مارے شاہ مدار۔ کسی کو موٹر سائیکل کا جھانسا دے کر لوٹ دیا جاتا ہے،کسی کو پانچ ہزار روپے کی امداد کا دھوکہ دے کر اس سے ہزار دو ہزار روپے نکلوا لیے جاتے ہیں۔ ڈکیتی، چوری، نوسری بازی اور ڈیجیٹل کرائم سے بچنے کا خاتمہ تو ممکن نہیں ہے لیکن کسی حد تک اس میں کمی لوگوں میں شعور پیدا کرکے ضرور کی جا سکتی ہے۔
قارئین! اس وقت ڈیجیٹل کرائم اور سائبرکرائم ہمارے ایک ایسے دشمن کی شکل اختیار کر چکے ہیں جو کہ ہمارے اندر سے ہمیں ہی شکست دے دیتا ہے۔میرا چونکہ ان اداروں سے پروفیشنلی تعلق رہا ہے ۔اس لیے میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ کسی بھی قسم کے جرائم، دھوکے بازی، نوسربازی، فراڈ کا تدارک صرف عوام کی ذہنی اویئرنس سے ممکن ہے۔ برائے کرم کسی ایسے کام جس کو آپ خود نہیں سمجھتے اپنے کسی قریبی عزیز یا دوست سے مشاورت کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔دوسری صورت میں جب آپ کے بڑے نقصان کے بعد کوئی دوست آپ کے گھر افسوس کرنے آئے تو یہ زیادہ شرمندگی کے لمحات ہوتے ہیں۔