حسبِ موقع ازقلم : رقیہ غزل
وطن عزیز کے سیاسی ، معاشی اور سماجی حالات دن بدن پریشان کن ہو تے جا رہے ہیں ۔ ہر سطح پر عدم برداشت اور انتہا پسندی میں اضافہ ہواہے کیونکہ یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ گذشتہ ستر برسوں سے کچھ نہیں بدلا جس کا اظہار سبھی درپردہ یا کھلے عام کر رہے تھے لیکن اب جناب چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے یہ کہہ کر مہر ثبت کر دی ہے کہ ”گذشتہ ستر سالوں سے اشرافیہ نے ملک پر قبضہ کر رکھا ہے یہ ایک بہت بڑا مگر کڑوا سچ ہے“ ۔ یقینا یہ بات عام سی لگتی ہے لیکن قانون کی بے توقیری کس سے چھپی ہے تقریباًہر منصف نے با بنگ دہل اس کا اعتراف کیا ہے۔ مجھے سابق چیف جسٹس ارشاد حسن خان صاحب کی بات یاد آگئی : جب میں نے ان کی خود نوشت پر کالم لکھا تو انھوں نے کہا تھا کہ ہر دانشور نے میری کتاب ” ارشاد نامہ “ کا تجزیہ اپنی عینک سے پڑھ کر کیا مگر رقیہ بیٹی! آپ نے وہ پڑھا اور لکھاجو میں کہنا چاہتا تھا کہ جب ہم کسی منصب پر ہوتے ہیں تو وقت ،حالات اور بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو مجبوراً فیصلے کرواتی ہیں جو باتیں ہم اس وقت نہیں کر پاتے وہی اپنی کتابوں میں تحریر کرتے ہیں یقینا ہمارے ملک کے حالات ستر برسوں سے ایسے ہیں کہ ہم کہنے پر مجبور ہیں کہ
ہر بات جانتے ہوئے بھی دل مانتا نہ تھا
ہم جانے اعتبار کے کس مرحلے میں تھے
اسی اعتبار و بے اعتباری کے مرحلے میں آجکل عوام پھر ہیں اور سب کی نگاہیں سپریم کورٹ کی طرف لگی ہوئی ہیں۔بائیں وجہ ایک طرف میاں صاحب کی واپسی ، سزا معطلی اور شاہی پروٹوکول جو کہ سب کچھ خلاف توقع ڈرامائی انداز میں ہو ااوردوسری طرف ۹ مئی سانحے میں پی ٹی آئی کا کردار زیر بحث ہے۔ لیکن ان حالات میں الیکشن کمیشن کی طرف سے 8 فروری کوعام انتخابات کا باضابطہ اعلامیہ جاری کر دیا گیا ہے جس کے بعد اکثریتی صحافیوں نے پٹاریاں کھول لی ہیں اور نتائج بھی بتا دیے ہیں مزید وثوق سے کہہ رہے ہیں کہ ابھی تک جتنے بھی سروے ہوئے ہیں ان کے مطابق پی ٹی آئی کی مقبولیت زیادہ ہے مگر ن لیگ کے لئے ماحول سازگار بنتا جا رہا ہے اور نگران حکومت بھی نرم گوشہ رکھتی ہے جس کیوجہ سے شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں ۔ منظر پرانے ہیں، کھلاڑی بھی وہی ہیں بس لیڈربدل گئے ہیں البتہ خان صاحب کا دیا ہوا شعور رنگ لا رہا ہے کہ عوام رسمی حکمت عملیوں کو پسند نہیں کر رہے سو جو بھی کام خلاف آئین ہوتا ہے اس پر ختم نہ ہونے والی بحث کا ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے کہ وہ جو کل تک خان صاحب اور ان کے ترجمانوں کی اخلاقیات کوہدف تنقید بناتے تھے آج انھی کی نقش قدم پر چلنے میں ہی نجات سمجھنے لگے ہیں کیونکہ اب تو عام آدمی سوال کرنے لگا ہے جس کا ثبوت لمز یونیورسٹی کے طلباءکا کاکڑ صاحب سے سوالات کے ذریعے مل چکا ہے واقعی اقبال کا شاہین زندہ ہے کہ سر جھکائے ،ہاتھ باندھے ،ڈرے سہمے نوجوانوں کا دور خواب ہوا ۔آج اقبال کے شاہین خودی کا سبق پڑھ چکے ہیں اور گھسے پٹے سوال نہیں کرتے ۔یہ تبدیلی خوش آئند ہے لیکن ان پر تنقیدی مکالے روایتی وڈیرہ شاہی کے آمرانہ رویوں کے عکاس ہیں جو زہر ہلاہل کوقند نہ کہنے والوں کے خلاف ہمیشہ سراپا احتجاج رہتے ہیں ۔
جہاں تک نتائج کی بات ہے تو سیا سی میدان ضرور سجا ہے مگر حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کونسا پہلوان کس کے مد مقابل ہو گا کیونکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ میاں صاحب اور ترین صاحب کی نا اہلی کا معاملہ ایک بار پھر عدالت جائے گا جس کی موجودگی میں ان کے سیاسی مستقبل بارے کچھ بھی کہنا ناممکن ہے اسی خطرے کو بھانپتے ہوئے زرداری صاحب نے بیان داغا ہے کہ میں نے شہباز شریف کو وزیراعظم بنوایا مگر اس نے کام نہیں کیا اور اب میں نواز شریف کو وزیراعظم نہیں بننے دونگا ۔زرداری صاحب دور اندیش ہیں اور سیاسی حالات پر کڑی نظر رکھتے ہیں اور اس بات کو ساری سیاسی جماعتیں تسلیم کرتی ہیں کہ پی ڈی ایم بنانے اور خان صاحب کا تختہ الٹنے میں زرداری صاحب کی معاملہ فہمی کا بہت بڑا ہاتھ تھا جسے اس بیان کے بعد بھی رانا ثنا اللہ نے تسلیم کیا ہے مگر ساتھ کہا ہے کہ وہ بر موقع مصالحتی رویہ اپناتے ہیں ،ان کی باتیں انتخابی پوائنٹ سکورنگ کے سوا کچھ بھی نہیں، ہم مل کر حکومت بنا سکتے ہیں ۔یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ سالہا سال سے یہ دو جماعتیں فرینڈلی اپوزیشن کے نام پر مفادات کے جھنڈے تلے ایک ہو جاتی ہیں لیکن اس مرتبہ حالات مختلف ہیں کیونکہ مقبولیت پی ٹی آئی کے پاس ہے اور پی ڈی ایم کی کارکردگی صفر ہے ۔ایسے میں پی ٹی آئی کے ناراض رہنماﺅں کے گٹھ جوڑ سے بننے والی نئی پارٹی آئی پی پی ہی پی ڈی ایم کے لئے کامیابی کی نوید ہو سکتی ہے یعنی اگر معجزہ نہ ہوا تو سولہ ماہ کا سیٹ اپ ہی سامنے آئے گا۔ادھر عمران خان نے ہائی کورٹ سے درخواست ضمانت خارج ہونے کے بعد سپریم کورٹ میں دائر کر دی ہے جبکہ جناب چیف جسٹس فائز عیسی کا راستہ روکنے کی کوشش پی ٹی آئی دور میں ہوئی بعدازاں اس کوشش پرمعذرت کی گئی توماضی کو دیکھتے ہوئے سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا چیف جسٹس صاحب آئینی فرض کو مقدم رکھتے ہوئےنجات دہندہ ثابت ہونگے ؟ایسا ہوا یا نہ ہوا دونوں صورتوں میں سیاسی ماحول یکسر بدل جائے گا ۔ تبھی میں کہتی تھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ خان صاحب کا کوئی دوست نہیں ورنہ کوئی تو سمجھاتا کہ حوصلوں کو اتنا بلند نہیں کرنا چاہیے کہ انسان اپنی لگائی آگ میں جل جائے کہ اقتدار تو شعلوں کا کھیل ٹھہرا ،پلک جھپکتے سارا منظر نامہ بدل جاتا ہے ۔یہ ہر منصب دار کے لئے مقام عبرت ہے اگر وہ سمجھے کہ وقت پلٹتے دیر نہیں لگتی
بہر حال یہ اسی نوے کی دہائی نہیں کہ اپنی مرضی کے نتائج کے لئے کسی کی حمایت میں انتخابی ماحول بنا کر ملک کو استحکام دیا جاسکتا ہے ۔سبھی سیاسی پارٹیوں کو انتخابی عمل میں شامل کر کے سبھی کولیول پلئینگ کا موقع دیکر ہی انتخابی ماحول کو شفافیت کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو ملکی سیاست کو استحکام نہیں ملے گا پھر دو سال بعدہم وہیں کھڑے ہونگے جہاں آج کھڑے ہیں ۔ہمارا ملک مزید بحرانوں کامتحمل نہیں ہوسکتا ۔ہر قسم کی تنقید سے بالا ہو کر ہمیں ماننا ہوگا کہ ملکی حالات بہتر نہیں ہوسکے اور ہر گزرتا دن عوام کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل رہا ہے ۔ہر چار دن بعد ایک نئی بیماری وجود پکڑ لیتی ہے اور قیمتوں میں نا قابل یقین حد تک اضافوں کیوجہ سے قوت خرید ختم ہوچکی ہے کہ گڈ گورننس کا فقدان کھل کر سامنے آچکا ہے لیکن برسر اقتدار عوامی ریلیف کے لئے کچھ نہیں کرتے الٹا اشرافیہ کو نوازتے ہیں اور اپنے کروفر کا یہ عالم ہے کہ قبرستان فاتحہ خوانی کے لئے ریڈ کارپیٹ پر چل کر قبر تک جاتے ہیں جبکہ اس ملک کا ہر نیاپیدا ہونے والا بچہ بھی قرضے میں ڈوبا ہوا ہے ۔ایسے دگرگوں حالات میں سنجیدہ افراد کو سامنے آنا چاہیے جو کہ ہر قسم کی انتقامی اور مفاداتی سیاست کو بالائے طاق رکھ کر مل جل کرصرف عوام الناس کی فلاح و بہبود کے لئے کام کریں اورکچھ کر کے دکھائیں کیونکہ مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے مگر حکمران کہتے ہیں ”سب اچھا ہے “ ! سب اچھا ہے مگر اشرافیہ یعنی افسر شاہی اور وڈیرہ شاہی کے لیے ،یہ ایک بہت بڑا اور کڑوا سچ ہے !