اسرائیلی وزیر کی غزہ پر ایٹم بم چلانے کی دھمکی

غزہ میں بسنے والے معصوم فلسطینیوں پر ناجائز ریاست اسرائیل کی جانب سے مسلط کی گئی جنگ کو ایک ماہ مکمل ہوگیا ہے۔ عالمی برادری کی جانب سے جنگ بندی کے لیے کیے جانے والے مطالبات کو غاصب صہیونی ریاست کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے ایک بار پھر رد کردیا ہے۔ مغربی طاقتوں کے ایما پر ہونے والی اس جنگ میں دس ہزار سے زائد معصوم فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک کھل کر نہ صرف اس جنگ میں اپنے بغل بچے اسرائیل کی حمایت کررہے ہیں بلکہ ان کی جانب سے غاصب صہیونیوں کو گولہ بارود بھی فراہم کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں مسلم ممالک کی بے حسی بھی قابلِ دید ہے۔ کسی بھی مسلم ملک کے حکمران کی جانب سے اب تک اس جنگ سے متعلق کوئی واضح حکمت عملی اختیار نہیں کی گئی۔ ہاں، کھوکھلے دعوو¿ں اور بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔
ادھر، غزہ میں صورتحال یہ ہے کہ فلسطینی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک 4 ہزار 800 بچے شہید ہوچکے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد 26 ہزار سے زائد ہے۔ 7 اکتوبر سے جاری اسرائیلی حملوں کے سبب یہ علاقہ خوراک، پانی اور ایندھن کی شدید قلت کا شکار ہے اور طبی سامان کی بھی کمی ہے جبکہ مواصلاتی نظام منقطع ہے۔ فلسطینی ہلال احمر نے کہا ہے کہ اسے رفح کراسنگ کے ذریعے 30 امدادی ٹرک موصول ہوئے جن میں سے 3 ہلال احمر اور 19 فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی کو دیے گئے ہیں۔ فلسطینی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی نے کہا ہے کہ غزہ میں ایک مرتبہ پھر مواصلات اور انٹرنیٹ سروس بند کردی گئی ہے۔ غاصب ریاست اسرائیل کی جانب سے مواصلات اور انٹرنیٹ کے مین روٹس کاٹ دیے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی سے 15 لاکھ افراد نقل مکانی کر چکے ہیں اور ان میں سے 149 اقوام متحدہ کے کیمپ میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے مقبوضہ مغربی کنارے کا اچانک دورہ کیا اور فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کی۔انٹونی بلنکن کا غزہ کا پہلا دورہ ہے۔ اس موقع پر امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ غزہ کے باشندوں کو زبردستی بے گھر نہیں کیا جانا چاہیے۔ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے انٹونی بلنکن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں فوری جنگ بندی کی ضرورت ہے اور غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کی اجازت ہونی چاہیے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ امریکا میں غزہ پر اسرائیلی حملے کے حوالے سے جذبات میں نمایاں تبدیلی نظر آرہی ہے جس کی وجہ سے بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیلیوں کو اپنی جارحیت کو طول نہ دینے کا مشورہ دیا ہے۔ 14 امریکی سینیٹرز نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں حماس کے خلاف اسرائیلی اقدامات کو انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر روکنے کی اپیل کی ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ کانگریس میں ڈیموکریٹس سینیٹرز نے ایک اہم قانون کا حوالہ دیا، یہ قانون انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث سکیورٹی فورسز کی امداد پر پابندی لگاتا ہے، اراکین نے بائیڈن انتظامیہ کی اسرائیل کے لیے ہنگامی فوجی امداد کے پروگرام کو چیلنج کیا۔
کیتھولک مسیحیت کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے غزہ میں ایک بار پھر جنگ بندی کی اپیل کی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ خدا کے نام پر جنگ بندی کی درخواست کرتا ہوں، غزہ میں انسانی صورتحال انتہائی سنگین ہے، بچوں کے بارے میں سوچا جائے، جنگ کے شکار بچوں کا مستقبل ختم کیا جارہا ہے، امید ہے تنازع پھیلنے سے بچانے کے لیے کام کیا جائے گا۔ اسی طرح، امریکا کے سابق صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ناقابل برداشت ہے۔ اپنے ایک بیان میں باراک اوباما نے کہا کہ کسی نہ کسی حد تک ہم سب اس میں شریک ہیں۔علاوہ ازیں، امریکی سینیٹر اور سابق صدارتی امیدوار برنی سینڈرز نے کہا ہے کہ فلسطینی بچے بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے کہ اسرائیلی اور امریکی بچے۔انھوں نے مزید کہا کہ غزہ کی تباہی جدید دور کے سب سے زیادہ ہولناک لمحات میں سے ایک ہے۔برنی سینڈرز کا کہنا تھا کہ پناہ گزینوں کے کیمپوں اور ایمبولینسوں پر اندھا دھند بمباری سے ہزاروں مرد، عورتوں اور بچوں کا قتل عام کیا گیا۔ یہ بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے جو کسی صورت قابل قبول نہیں۔
غاصب صہیونیوں کی شدت پسندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انتہا پسند اوزما یہودیت پارٹی سے تعلق رکھنے والے اسرائیلی وزیر نے کہا ہے کہ غزہ جنگ جیتنے کے لیے اسرائیلی فوج کے پاس کئی آپشنز ہیں جن میں آخری اور حتمی اقدام ایٹم بم گرانا ہے۔ ایک ریڈیو انٹرویو میں اسرائیلی وزیر نے انسانی ہمدردی کے تحت بھیجے گئے امدادی سامان کو فلسطینی ضرورت مندوں تک پہنچانے سے بھی صاف انکار کردیا۔ سخت گیر یہودی تنظیم کے متعصب وزیر نے غزہ سے فلسطینیوں کو بے دخل اور ان کے گھروں کو تباہ کرنے سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ فلسطینی آئرلینڈ جائیں یا کسی صحرا کا رخ کریں۔ یہ فیصلہ انھیں خود کرنا ہے۔
نہایت افسوس ناک اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ مسلم ممالک کے حکمران یہ سب کچھ نہ صرف خاموش تماشائی بن کر دیکھ رہے ہیں بلکہ ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جو امریکا کی محبت کی وجہ سے غاصب اسرائیلی ریاست کے ہی ہاتھ مضبوط کررہے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے جن ممالک نے اپنے ہاں امریکی میزائل سسٹم نصب کرا کے ناجائز ریاست اسرائیل کے دفاع کو یقینی بنانے کی کوشش کی وہ کسی بھی طور خود کو مسلم امہ کا نمائندہ نہیں کہہ سکتے۔ آج اگر چند مسلم ممالک اکٹھے ہو کر اس جنگ کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کا اعلان کردیں تو امریکا اور برطانیہ سمیت اس جنگ میں غاصب صہیونی ریاست کی حمایت کرنے والے ممالک اس قابل نہیں رہیں گے کہ وہ اس سلسلے کو مزید طول دے سکیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ تمام اسلامی ممالک فوری طور پر امریکا اور برطانیہ سمیت ہر اس ملک کے ساتھ سفارتی تعلقات محدود کر لیں جو اس جنگ میں غاصب صہیونیوں کی حمایت کررہا ہے لیکن ایسا تب ہوسکتا ہے جب مسلم ممالک پر عوام کے حقیقی نمائندے حکمرانی کررہے ہوں، کٹھ پتلیوں سے جو کچھ ہوسکتا ہے، وہ ساری دنیا کے سامنے ہے!

ای پیپر دی نیشن