حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر اور آپ کے استاد محترم امام حماد بن سلیمان رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر کے درمیان سات گلیوں کا فاصلہ تھا لیکن آپ کبھی بھی ان کے گھر کی طرف قدم کر کے نہیں سوئے۔آپ دوران درس اپنے استاد کے بیٹے کے احترام میں کھڑے ہو جاتے۔ امام حماد کی ہمشیرہ کہتی ہیں کہ امام ابو حنیفہ ہمارے گھر کی روئی دھنتے ، دودھ اور ترکاری خرید کر لاتے۔ اور اسی طرح گھر کے باقی کام کاج بھی کرتے تھے۔اما شافعی رحمة اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ امام مالک کی مجلس درس بڑی با وقار ہوتی اور تمام طلبہ ادب کے ساتھ بیٹھ کر گفتگو سنتے۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ ہم لوگ کتاب کا ورق آہستہ سے الٹتے تھے تا کہ ورق کی آواز پیدا نہ ہو۔
امام قاضی ابو یوسف فرماتے ہیں کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے نماز پڑھی ہو اور اپنے استاد کے لیے دعا نہ مانگی ہو۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ ہر نماز کے بعد امام اعظم کے لیے دعائے مغفرت فرماتے تھے اور پھر اپنے والدین کے لیے۔
ہارون الرشید کے دربار میں اگر کوئی عالم تشریف لاتے تو آپ ان کی تعظیم میں کھڑے ہو جاتے۔ درباریوں نے کہا کہ اس طرح سلطنت کا رعب نہیں رہتا۔ تو انہوں نے کہا کہ اگر علمائدین کا ادب کرنے سے رعب جاتا ہے تو جانے ہی کے قابل ہے۔
ایک مرتبہ ایک نابینا عالم کی خلیفہ ہارون الرشید نے دعوت کی تو خلیفہ نے خود ان کے ہاتھ دھلائے۔ اسی دوران انہوں نے عالم سے پوچھا کہ آپ کے ہاتھ کون دھلا رہا ہے تو عالم نے جواب دیا معلوم نہیں۔ تو خلیفہ نے کہا کہ میں خود آپ کے ہاتھ دھلا رہا ہوں۔ تو عالم نے جواب دیا آپ نے علم کی عزت کے لیے ایسا کیاتو خلیفہ نے جواب دیا بے شک یہ ہی بات ہے۔
علامہ محمد اقبال رحمة اللہ تعالی علیہ کے اساتذہ میں مولوی سید میر حسن بھی شامل ہیں۔ جنہوں نے آپ کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ جب علامہ اقبال کو سر کا خطاب ملنے لگا تو انہوں نے کہا کہ پہلے میرے استاد سید میر حسن کو شمس العلما ءکا خطاب دیا جائے پھر میں یہ خطاب قبول کروں گا۔ایک مرتبہ علامہ محمد اقبال اپنے دوستوں کے سا تھ گلی میں بیٹھے تھے کہ اچانک دور سے مولوی صاحب کو آتے دیکھا۔ تو جلدی سے ان کے پاس پہنچے۔ آپ کے ایک پاﺅں میں جوتا نہیں تھا۔ آپ ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگے یہاں تک کہ علامہ اقبال بغیر جوتے کے ان کو گھر چھوڑ کر واپس آئے۔