پاکستان کی سود کی سالانہ ادائیگیاں ساڑھے 8 ہزار ارب روپے ہو جانے کا امکان، حکومت نے 18 فیصد شرح سود کے ساتھ سودی ادائیگیوں کا تخمینہ 7300 ارب روپے لگایا، شرح سود 22 فیصد ہونے کی وجہ سے سود کی ادائیگیاں بڑھ گئی۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان کی سالانہ قرضوں اور سود کی ادائیگیوں میں انتہائی تشویش ناک اضافہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق رواں مالی سال کے اختتام تک ملک کی قرضوں اور سود کی ادائیگیاں اکٹھے کیے جانے والے مجموعی ٹیکس سے بھی زائد رہنے کا امکان ہے۔ رواں مالی سال کے بجٹ میں حکومت نے سودی ادائیگیوں کا تخمینہ 7 ہزار 300 ارب روپے لگایا تھا، حکومت کی جانب سے یہ تخمینہ 18 فیصد کی شرح سود کے حساب سے لگایا گیا تھا، تاہم ملک میں شرح سود تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے 22 فیصد کی بلند ترین سطح پر جا پہنچی۔ شرح سود میں تخمینے سے 4 فیصد زائد اضافے کی وجہ سے سودی ادائیگیوں میں بھی 1 ہزار 200 ارب روپے کا اضافہ ہو گیا، یوں رواں مالی سال کے دوران سودی ادائیگیوں پر مجموعی طور پر 8 ہزار 500 ارب روپے خرچ کرنا ہوں گے۔ یعنی حکومت کے پاس سودی ادائیگیوں کے بعد ایک روپیہ بھی نہیں بچے گا، بلکہ حکومت کی آمدن بھی سودی ادائیگیوں کیلئے کافی نہیں ہو گی۔ حکومت کو سودی ادائیگیوں اور اپنے اخراجات کیلئے ہزاروں ارب روپے کا مزید قرضہ لینا پڑے گا۔ جبکہ حکومت کو بیرونی قرضوں کے حصول میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ وزارت خزانہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے بیرونی فنانسنگ کے خلاء کو پر کرنے کیلیے آئی ایم ایف سے مدد کی درخواست کی ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کو بیرونی فنانسنگ میں درپیش مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے بیرونی فنانسنگ میں کمی سے ہونے والے نقصان کو پورا کرنے میں مدد کی درخواست کی ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کو غیر ملکی تجارتی قرضوں، یوروبانڈز اور اسلامی ترقیاتی بینک سے قرضوں کے حصول کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ان ذرائع سے فنانسنگ کا دارومدار مارکیٹ کے حالات پر ہے، اسلامی ترقیاتی بینک نے رواں مالی سال کے دوران 1 ارب ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن شاید یہ وعدہ وفا نہ ہوسکے۔