پاکستان کی سالمیت کا احترام۔

وطن عزیز کے بارے میں مثبت اور اچھی خبریں تلاش کرنے کی کوشش اور میری قومی حسرت ابھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوئی تھی کہ اگلے روز یہاں پھر ایک ایسا انتہائی افسوسناک واقعہ رونما ہوا جس سے مجھے ہی نہیں‘ برطانوی پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کو بھی انتہائی شرمندگی سے دوچار ہونا پڑا۔ شرمندگی سے دوچار کر دینے والے اس واقعہ پر پرانی وضع قطع کے گوروں نے محض طنزیہ تیر ہی نہیں برسائے پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی پر بھی دل کھول کر تنقید کی ہے۔ لندن میں رونما ہونے والے اس ناخوشگوار واقعہ سے برطانیہ بھر میں ہمارے دستوری سسٹم کی جو تضحیک ہوئی‘ اس پر آگے چل کر بیان کروں گا۔ پہلے اپنے عزیز وطن کی پارلیمنٹ میں ہونیوالی حالیہ آئینی ترمیم کی ایک مختصر سی جھلک! یہ ایک مروجہ اصول ہے کہ دنیا کے ہر مہذب جمہوری ملک میں آئین و قانون میں ترمیم یا تبدیلی ہمیشہ رسمی کارروائی قرار دی جاتی ہے جسے حکومت اور اپوزیشن ہائوس کورم کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی بھی وقت مکمل کر سکتے ہیں۔ بنیادی طور پر اس آئینی کارروائی کو عوام کی بہتری‘ خوشحالی‘ عدلیہ کے استحکام اور ریاستی امور کے فوری حل کیلئے ناگزیر تصور کرتے ہوئے مسودے کی توثیق کے بعد آئین و دستور کا حصہ بنالیا جاتا ہے۔ مگر افسوس! ہمارے جمہوری سیٹ اپ میں ایسی آئینی ترامیم اور اراکین اسمبلی کی رائے کے احترام کا اپنا ایک الگ ہی طریقہ کار ہے۔ کسی بھی آئینی بل یا ترمیم کو اکثریت سے پاس کرانے کیلئے اتحادی حکومت جب کسی قانونی الجھائو کا شکار ہو جائے تو حکومت اپوزیشن سے فوری رابطے کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیتے ہوئے اپوزیشن لیڈروں سے براہ راست فوری رابطے کی کوشش کرتی ہے۔ مگر اگلے روز ہماری قومی اسمبلی میں اس کیبرعکس ہوا۔ 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری اور وہ بھی ’’فٹافٹ‘‘۔ اطلاعات کے مطابق 26ویں ترمیم کے حکومتی ڈرافٹ پر مولانا فضل الرحمان اور نہ پی ٹی آئی کی قیادت کو اعتماد میں لیا گیا۔ ذرائع کے مطابق ڈرافٹ کی عبارت کیا تھی‘ اس پر بیشتر حکومتی ارکان تک کو بے خبر رکھا گیا۔ ایسی صورتحال میں کسی بھی آئینی ترمیم کو پاس کروانا قطعی جمہوری اقدام تصور نہیں ہوتا۔ چنانچہ حکومت کو جب یہ احساس ہوا تو فوری طور پر اپوزیشن رہنماء مولانا فضل الرحمان اور پی ٹی آئی قیادت سے رابطہ قائم کرلیا گیا۔ رابطے مزید بڑھے‘ ڈرافٹ میں مبینہ طور پر ردوبدل کیا گیا اور یوں مولانا فضل الرحمان کے مشورے سے اس آئینی ترمیم کو پاس کرلیا گیا مگر! پی ٹی آئی نے اس آئینی ترمیم میں حصہ لینے سے مبینہ طور پر انکار کر دیا۔ جو کچھ ہوا‘ جس طرح بھی ہوا‘ 26ویں آئینی ترمیم اب منظور کی جا چکی ہے۔ مگر آئینی امور پر دسترس رکھنے والے بعض ماہرین کے مذکرہ ترمیم کے بعض حصوں پر تحفظات بدستور موجود ہیں۔ حیرت اب اس امر پر ہے کہ 26ویں ترمیم کا سلسلہ پوری طرح ابھی مکمل نہیں ہوا۔ جبکہ حکومتی حلقوں میں 27ویں ترمیم کی بازگشت ابھی سے سنائی دینے لگی ہے۔ ایسا کیوں؟ یہ سوال قبل ازوقت ہے۔ آسان الفاظ میں انتظار۔ اب آئیے لندن میں رونما ہونے والے حالیہ اس افسوسناک واقعہ کی جانب جس سے پاکستان کی دنیا بھر میں ایک مرتبہ پھر جنگ ہنسائی ہوئی ہے۔ پاکستان سپریم کورٹ کے چند روز قبل ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جن کے اعزاز میں برطانوی لاء کالج‘ مڈل ٹمپل میں ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کیا گیا‘ تقریب سے فراغت کے بعد وہ ہائی کمشن کی جانب سے دی گئی گاڑی میں جونہی بیٹھنے لگے تو پی ٹی آئی کارکنان نے مبینہ طور پر انہیں گھیرے میں لے لیا اور ان سے شدید بدتمیزی کرتے ہوئے انکے خلاف عامیانہ زبان میں شدید نعرے بازی کی۔ انکی گاڑی پر جوتے برسائے جبکہ ریٹائرڈ چیف جسٹس نے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کیلئے گاڑی کے اندر اپنا سر سیٹ کے درمیان نیچے کرلیا اور یوں گاڑی کو بڑی مشکل سے ہجوم سے باہر نکالا گیا۔ یہ منظر واقعی افسوسناک تھا۔ ایسا واقعہ ہرگز روپذیر نہیں ہونا چاہیے تھا جبکہ عام برطانوی شہری اس واقعہ کو پی ٹی آئی کارکنان کے  مظاہرے کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔ لندن کے باخبر گورے صحافیوں اور ایک دو بڑے انگریزی اخبارات نے مبینہ طور پر چند روز قبل ہی یہ خبر دے دی تھی کہ ریٹائرڈ چیف جسٹس فائز عیسیٰ کے مڈل ٹمپل تقریب میں جانے پر تحریک انصاف کے کارکنان وہاں جمع ہی نہیں ہونگے‘ اپنے بانی اسیر قائد قیدی نمبر804 عمران خان کی فوری رہائی اور ان پر جیل میں ہونے والے مبینہ ظلم کے خلاف بھی بھرپور احتجاج کرینگے۔ 
بعض اطلاعات کے مطابق اس افسوسناک واقعہ کے رونما ہونے سے قبل برطانوی انتظامیہ کو بھی اطلاع دی گئی‘ سکیورٹی کا تقاضا بھی کیا گیا مگر افسوس! بروقت ایسا نہ ہو سکا۔ اطلاعات اب یہ بھی ہیں کہ قاضی فائز عیسیٰ پر حملہ کرنے والے عناصر کے بارے میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے سخت ترین اقدامات کا عندیہ دیتے ہوئے انکے پاسپورٹ اور شہریت منسوخ کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ میں قانون دان ہوں اور نہ ہی قانون کی باریکیوں کو سمجھتا ہوں تاہم میری دانست میں برطانوی شہریوں کے خلاف کچھ بھی کرنے سے قبل ماہرین قانون سے مشورہ ضرور لینا چاہیے تاکہ ایسے معاملات کو سلجھانے کیلئے کوئی بہتر طریقہ استعمال کیا جا سکے۔ برطانیہ کو دنیا میں آج بھیDemocracy Mother of کہا جاتا ہے‘ جہاں آزادی تحریر اور آزادی اظہار خیال پر کوئی قدغن نہیں البتہ کسی پر حملہ‘ نسلی تعصبانہ ریمارکس اور توڑ پھوڑ کی قطعی اجازت نہیں تاہم اسی تناظر میں 3 نومبر 2024ء کو پی ٹی آئی نے اپنے قائد عمران خان کی فوری رہائی کیلئے برطانوی وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ 10 ڈائننگ سٹریٹ پر ایک بھرپور احتجاج ریکارڈ کروایا ہے جس میں کثیر تعداد نے شرکت کی۔ قاضی فائز عیسیٰ پر کئے گئے مبینہ حملے پر فیصلہ اب کیا ہوتا ہے‘ کچھ کہنا فی الحال قبل ازوقت ہے۔

ای پیپر دی نیشن