آؤ خلقِ خدا میں آسانیاں بانٹیں

 آج میں آپ کے ساتھ ایک نصیحت آموز کہانی شئیر کر رہی ہوں یہ کہانی خلقِ خدا کی بھلائی کے ناطے آسانیاں تقسیم کرنے اور اس کے ناطے طمانیت قلب کا اہتمام کرنے کا روشن راستہ دِکھا رہی ہے۔ یہ کہانی ایک خوشحال کاروباری شخصیت سے منسوب ہے۔ وہ اپنی تمام مصروفیات کو پس پشت ڈال کر ایک درویش کے پاس پہنچا تھا…. جب اس کی باری آئی تو اس نے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا اور بلاتمہید درویش سے دعا کرنے کو کہا ….. درویش نے اس شخص کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور بڑے جذب سے دْعا دی:
’’اللہ تجھے آسانیاں بانٹنے کی توفیق عطا فرمائے‘‘ 
اس شخص نے اس دعا پر حیرت کا اظہار کیا اور کہا:
’’حضرت! الحمد للہ ہم مال پاک کرنے کے لیے ہر سال وقت پر زکوٰۃ نکالتے ہیں، بلاؤں کو ٹالنے کے لیے حسبِ ضرورت صدقہ بھی دیتے ہیں… اس کے علاوہ ملازمین کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھتے ہیں، ہمارے کام والی کا ایک بچہ ہے، جس کی تعلیم کا خرچہ ہم نے اٹھا رکھا ہے، اللہ کی توفیق سے ہم تو کافی آسانیاں بانٹ رہے ہیں …. 
درویش تھوڑا سا مسکرایا اور بڑے دھیمے اور میٹھے لہجے میں بولا: 
’’میرے بچے! سانس، پیسے، کھانا ... یہ سب تو رزق کی مختلف قسمیں ہیں، اور یاد رکھو ’’رَازِق اور الرَّزَّاق‘‘ صرف اور صرف اللہ تعالٰی کی ذات ہے… تم یا کوئی اور انسان یا کوئی اور مخلوق نہیں …. تم جو کر رہے ہو، اگر یہ سب کرنا چھوڑ بھی دو تو اللہ تعالٰی کی ذات یہ سب فقط ایک ساعت میں سب کو عطا کر سکتی ہے ، اگر تم یہ کر رہے ہو تو اپنے اشرف المخلوقات ہونے کی ذمہ داری ادا کر رہے ہو‘‘۔
 درویش نے نرمی سے اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیا اور پھر بولا:
’’میرے بچے! آؤ میں تمہیں سمجھاؤں کہ آسانیاں بانٹنا 
کسے کہتے ہیں…. 
*- کبھی کسی اداس اور مایوس انسان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر، پیشانی پر کوئی شکن لائے بغیر ایک گھنٹہ اس کی لمبی اور بے مقصد بات سننا…. آسانی بانٹنا ہے! 
 *- اپنی ضمانت پر کسی بیوہ کی جوان بیٹی کے رشتے کے لیے سنجیدگی سے تگ ودو کرنا … آسانی بانٹنا ہے! 
*- صبح دفتر جاتے ہوئے اپنے بچوں کے ساتھ محلے کے کسی یتیم بچے کی اسکول لے جانے کی ذمہ داری لینا… آسانی بانٹنا ہے! 
*- اگر تم کسی گھر کے داماد یا بہنوئی ہو تو خود کو سسرال میں خاص اور افضل نہ سمجھنا بھی آسانی بانٹنا ہے! 
 *- غصے میں بپھرے کسی آدمی کی کڑوی کسیلی اور غلط بات کو نرمی سے برداشت کرنا بھی آسانی بانٹنا ہی ہے! 
*- چائے کے کھوکھے والے کو اوئے کہہ کر بْلانے کی بجائے بھائی یا بیٹا کہہ کر بْلانا بھی آسانی بانٹنا ہے! 
*- گلی محلے میں ریہڑی والے سے بحث مباحثے سے بچ کر خریداری کرنا بھی آسانی بانٹنا ہے! 
*- تمہارا اپنے دفتر، مارکیٹ یا فیکٹری کے چوکیدار اور چھوٹے ملازمین کو سلام میں پہل کرنا، دوستوں کی طرح گرم جوشی سے ملنا، کچھ دیر رک کر ان سے ان کے بچوں کا حال پوچھنا بھی آسانی بانٹنا ہے! 
*- ہسپتال میں اپنے مریض کے برابر والے بستر کے انجان مریض کے پاس بیٹھ کر اس کا حال پوچھنا اور اسے تسّلی دینا بھی آسانی بانٹنا ہے! 
*- ٹریفک اشارے پر اپنی گاڑی کے آگے کھڑے شخص کو ہارن نہ دینا جس کی موٹر سائیکل بند ہو گئی ہو، سمجھو تو یہ بھی آسانی بانٹنا ہے!"
درویش نے حیرت میں ڈوبے نوجوان کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور سلسلہ کلام جارے رکھتے ہوئے اسے دوبارہ متوجہ کیا:
"بیٹا جی! تم آسانی بانٹنے کا کام گھر سے کیوں نہیں شروع کرتے؟ 
*- آج واپس جا کر باہر دروازے کی گھنٹی صرف ایک مرتبہ بجا کر دروازہ کْھلنے تک انتظار کرنا ، 
*- آج سے باپ کی ڈانٹ ڈپٹ ایسے سننا جیسے موبائل پر گانے سنتے ہو ، 
*- آج سے ماں کے پہلی آواز پر جہاں کہیں ہو، فوراً اس کے پہنچ جایا کرنا… اب اسے تمہیں دوسری آواز دینے کی ضرورت نہ پڑے۔
*- بہن کی ضرورت اس کے تقاضا اور شکایت سے پہلے پوری کردیا کرو۔
*- آئندہ سے بیوی کی غلطی پر سب کے سامنے اس کی ڈانٹ ڈپٹ مت کرنا ، 
*- سالن اچھا نہ لگے تو دسترخوان پر حرف شکایت بلند نہ کرنا ، 
*- کبھی کپڑے ٹھیک استری نہ ہوں تو خود استری درست کرلینا ، 
میرے بیٹے! ایک بات یاد رکھنا زندگی تمہاری محتاج نہیں ، تم زندگی کے محتاج ہو ، منزل کی فکر چھوڑو، اپنا اور دوسروں کا راستہ آسان بناؤ ، ان شاء اللہ تعالٰی منزل خود ہی مل جائے گی …!!!! 
بے شک آپ اپنے عزیز و اقارب اور خلقِ خدا میں آسانیاں بانٹنے کا یہی راستہ اختیار کریں گے تو خالقِ کائنات سے فیض پائیں گے۔ ذرا اس راستے پر چل کر تو دیکھیئے، آپ کو پریشانی اور پشیمانی کا کوئی لمحہ درپیش نہیں ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن