گزشتہ روز قومی اسمبلی اور سینیٹ نے کثرت رائے سے آرمی‘ نیوی‘ فضائیہ سربراہان کی مدت ملازمت 5سال کردی گئی اور سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 17سے بڑھاکر 34کردی گئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی تعداد 9سے بڑھاکر 12کردی گئی۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی قانون 2024ء کا بل کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔ وفاقی وزیر قانون نے ججز کی تعداد بڑھانے اور پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کئے۔ مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت 5سال کرنے کا بل قومی اسمبلی میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے پیش کیا۔ بل کے تحت پاک فوج میں جنرل کی ریٹائرمنٹ کے قواعد کا اطلاق آرمی چیف پر نہیں ہوگا۔تعیناتی‘ دوبارہ تعیناتی یا ایکسٹینشن کی صورت آرمی چیف بطور جنرل کام کرتا رہے گا۔ وزیر قانون نے کہا کہ عدالتوں میں طویل عرصے سے مقدمات التوا کا شکار ہیں اسی لئے ہم ججز کی تعداد 17سے بڑھاکر 34کر رہے ہیں تاکہ مقدمات جلد نمٹائے جاسکیں۔ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان ضرورت کے مطابق ججز کی تعداد میں اضافہ کرسکے گی۔
اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہاں انصاف کے حصول کے لئے تین نسلوں کو انتظار کرنا پڑتا ہے اور تب کہیں جاکر انصاف کی فراہمی ممکن ہوپاتی ہے۔ اسی لئے میں نے بارہا کالم لکھ کر اس اہم ترین مسئلے کی جانب حکومتوں کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی کہ عام آدمی کو انصاف کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے اور ضرورت کے مطابق تمام عدالتوں میں ججوں کی تعداد دوگنی کی جائے۔ تمام ہائی کورٹس میں ججوں کی تعداد دوگنی کی جائے اور ہر تحصیل سطح پر 2 ایڈیشنل سیشن جج اور ایک سیشن جج تعینات کیا جائے۔ سپریم کورٹ کے 4-4جج دیگر صوبوں جبکہ پنجاب میں8جج (ملتان 3اور لاہور5جج) مستقل طور پر سماعت کے لئے بھیجے جائیںتاکہ کیسز جلد نمٹ سکیں اور لوگوں کو طویل سفر سے بھی بچایا جاسکے۔ہر ہائی کورٹ ڈویژنل بنچ کی عمارت میں سپریم کورٹ کے ججوں کی ایک ایک عدالت بنائی جائے اور وہاں مستقل عدالتی کارروائی ہونی چاہئے تاکہ لوگوں کو گھروں کے قریب انصاف مل سکے۔ اسی طرح قانون سازی ہونی چاہئے کہ عدالتیں پابند ہوں کہ دیوانی مقدمے کا فیصلہ ہر صورت ایک سال جبکہ فوجداری کا فیصلہ 6ماہ میں کیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ضرورت مطابق ججوں کی تعداد ہونی چاہئے اور اس سلسلے میں مزید ضرورت مطابق قانون سازی فوری طور پر کی جائے۔ ججوں کی تعداد میں اضافے اور فوری انصاف کی فراہمی کے لئے وسائل کی فراہمی بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔اس طرح کی قانون سازی تو بہت پہلے ہوجانی چاہئے تھی لیکن سیاسی جماعتوں کے باہمی خلفشار اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے باعث عملی کام کے بجائے صرف لفاظی سے طویل عرصہ ضائع کیا گیا۔
عام آدمی کو انصاف کی فوری فراہمی کی بات تو تمام سیاسی جماعتیں کرتی ہیں پھر اس سلسلے میں قانون سازی متفقہ طور پر کیوں نہیں کی جاتی؟ گزشتہ روز قانون سازی کے دوران بھی اپوزیشن جماعتوں نے احتجاج کیا جبکہ وزیر قانون نے کہا کہ قانون سازی کے لئے مشاورت میں اپوزیشن جماعتیں تعاون نہیں کررہیں۔ عام آدمی کو فوری اور سستا انصاف فراہم کرنے کے لئے باہمی سیاسی تضادات کو پس پشت رکھ کر تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر قانون سازی کے ساتھ ساتھ وسائل کی فراہمی پر بھی متفقہ لائحہ عمل طے کرنا چاہئے۔ سپریم کورٹ کے ججز کی تعدا د میں اضافہ خوش آئند ہے اور مزید ضروری قانون سازی بھی کی جانی چاہئے۔
آرمی‘ فضائیہ اور نیوی سربراہان کی مدت ملازمت 5سال کرنے کے قانون سازی منظوری بھی خوش آئند ہے۔ اب جس طرح قومی اسمبلی کی مدت 5سال ہے بالکل اسی طرح مسلح افواج کے سربراہان بھی 5سال تک کام کرتے رہیں گے۔ اس بارے میں بھی بہتر ہوتا کہ تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر متفقہ طور پر یہ قانون منظور کرتیں۔ ملکی دفاع و سلامتی کے معاملات میں تسلسل اور داخلی و خارجی خطرات سے ملک کو محفوظ رکھنے کے لئے اس قانون سازی کی اشد ضرورت تھی تاکہ پالیسیوں اور فیصلوں کا تسلسل رہے۔ یہ قانون سازی بھی بہت پہلے ہوجاتی تو مارشل لاء کا راستہ بھی روکا جاسکتا تھا۔
موجودہ آرمی چیف کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے کیونکہ انہوں نے تو معاشی طور پر بدترین حالات میں فوج کی کمان سنبھالی جب کچھ سیاستدانوں کی خواہش تھی کہ خدانخواستہ ملک ڈیفالٹ کرجائے اور اس مقصد کے لئے ہی وہ سیاست کر رہے تھے۔ ملک میں سیاسی افراتفری پیدا کرنے کی گھناؤنی سازش کی جاتی رہی۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بدترین معاشی حالات میں قوم کو نہ صرف لفظی طور پر حوصلہ دیا بلکہ عملی طور پر بھی وہ تمام اہم ترین فیصلے کئے گئے جس سے ملک معاشی بدحالی سے نکل کر تیز رفتاری سے بہترین معاشی مستقبل کی جانب گامزن ہوا۔اب موجودہ حکومت بھی ان کے شانہ بشانہ کام کررہی ہے اور وہ تمام اقدامات اٹھائے جارہے ہیں جس سے ملک تیزرفتاری سے معاشی خوشحالی کا سفر طے کر رہا ہے۔
ایوب خان کی حکومت سے قبل ملک میں کوئی ڈیم نہیں تھا۔ انہوں نے ڈیم بنائے اور آبی وسائل سے مکمل استفادہ کیا جس سے ملک بھر میں زیر کاشت رقبے میں انقلابی اضافہ ہوا۔ ایوب خان کے دور میں صنعت لگانے والے کو 200ایکڑ زمین بھی آباد کرنا لازمی قرار دیا گیا تھا۔ ایوب خان کے بنائے گئے ڈیموں سے اب بھی سستی ترین بجلی پیدارہورہی ہے۔ کس سیاستدان نے اب تک ڈیم بنایا ہے؟ قدرتی آبی وسائل کا بدترین ضیاں ہورہا ہے۔
ویسے سیاسی اور فوجی حکومتوں میں موازنہ کیا جائے تو یہ آسانی سے سمجھ آجاتا ہے کہ ملک کی معاشی خوشحالی میں فوجی حکومتوں کی کارکردگی انتہائی شاندار رہی۔ جنرل مشرف کے دور میں بھی جب مارشل لاء لگا تو اس وقت تواتر سے یہ خبریں آرہی تھیں کہ خدانخواستہ ملک ڈیفالٹر اور دہشت گردقرار دیا جاسکتا ہے لیکن ان کی حکومت سنبھالنے کے ایک سال بعد ہی مارک اپ کی شرح 24%سے کم ہوکر صرف 4%پر آگئی۔ 2008ء میںملکی زرمبادلہ کے ذخائر 18ارب ڈالر تک پہنچے۔ ملک میں کہیں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ بھی نہیں تھی اور ان کے پورے دور حکومت میں ڈالر اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل استحکام رہا۔ مہنگائی کی شرح قابو میں تھی اور اس وقت بھی اسٹاک مارکیٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھی۔ پاکستان عالمی مالیاتی اداروں کو قبل ازوقت ادائیگیاں کرکے قرض کے بوجھ سے نکل چکا تھا۔ملک میں کاروبار اور روزگار اپنے عروج پر تھا کیونکہ تمام تقرریاں‘ ترقیاں اور تبادلے صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر کئے جاتے تھے۔
جنرل عاصم منیر کے اقدامات اور ملک میں بڑھتی ہوئی غیر ملکی سرمایہ کاری کی نہ صرف ملک میں تعریف ہورہی ہے بلکہ بین الاقوامی طور پر انہیں ایسا لیڈر کہا جارہا ہے جو بدترین معاشی حالات سے ملک کو نکال کر مسلسل بہتری کی جانب لے جارہا ہے۔ ملک کو مایوسی کی دلدل سے نکال کر امید کی کرن دینے والے جنرل عاصم منیر کا نام تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ اب الحمد اللہ اسٹاک مارکیٹ 92000انڈیکس پر پہنچ چکی ہے اور ڈالر کی قیمتوں میں مسلسل استحکام ہے۔ اس کے علاوہ مارک اپ کی شرح بھی مسلسل کم ہوتے ہوتے اب 15%پر آگئی ہے حالانکہ 13%ہونا چاہئے تھااور امید کی جارہی ہے کہ 2025ء کے اوائل میں اس میں مزید نمایاں کمی کی جائے گی۔پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں بتدریج اضافے سے بے روزگاری میں نمایاں کمی کی توقع ہے۔ مہنگائی کی شرح میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔
ملک کو بہتری کی جانب لے جانے کے لئے تمام ضروری قانون سازی کی جانی چاہئے تاکہ ملک ہیجانی اور سیاسی خلفشار سے نکل کر معاشی و سیاسی استحکام کی جانب تیز سفر کرسکے۔ جنرل عاصم منیر کی خدمات کے باعث ان کا حق بنتا ہے کہ ان کو عہدے پر طویل عرصے تک برقرار رکھا جائے اور ایسے تمام جرنیلوں کی قدر کی جانی چاہئے جو ملک کو معاشی استحکام کے لئے انتھک محنت کررہے ہیں۔ موجودہ حکومت بھی جنرل عاصم منیر کے شانہ بشانہ عالمی سرمایہ کاری کے لئے کوشاں ہے اور ایپکس کمیٹیوں میں ہونیوالے فیصلوں پر مکمل عملدرآمد کیا جارہا ہے۔