قانون سازی پر جلدی کیوں

Nov 07, 2024

میاں حبیب

نہ جانے حکومت کو کس بات کی جلدی ہے۔ ہر کام فوری فوری کیے جا رہے ہیں۔ نہ دن دیکھتے ہیں نہ رات دیکھتے ہیں، بس ایک ہی دھن میں لگے ہوئے ہیں کہ جلدی کر لو۔ ایسے لگتا ہے جیسے کوئی پیچھے لگا ہوا ہے۔ خوف ہے کہ کہیں وہ نقصان نہ کر دے اس لیے ہر کام جلدی جلدی میں کیا جا رہا ہے۔ حکمران  اتنی محنت کر رہے ہیں کہ ان کی نیندیں بھی پوری نہیں ہو رہیں۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے لیے کئی رت جگے ہوئے اور اب اہم ترین قانون سازی کے لیے ایک ہی جھٹکے میں قومی اسمبلی اور سینٹ سے 6 بلز پاس کروالیے گئے ہیں۔ بیاعتباری اتنی ہے کہ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر چند گھنٹوں میں پاس ہونے والے قوانین صدر کی منظوری کے لیے اسی وقت ایوان صدر بجھوائے گئے۔ صدر مملکت کا انتظار کیے بغیر قائمقام صدر یوسف رضا گیلانی سے دستخط کروا کے فوری نافذ العمل بھی کروادیے گئے۔ اب سمجھ آ رہی ہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری ملک سے باہر کیوں گئے۔ وہ کل کو قسم کھانے جوگے ہوں گے کہ میں نے سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں اضافے کے قانون پر دستخط نہیں کیے تھے۔ میاں نواز شریف بھی بروقت بیرون ملک چلے گئے تھے اور اس قانون سازی کا حصہ نہ بنے۔ اب کل کو سیاسی ضرورت کے مطابق یہ سارا کچھ میاں شہباز شریف کے کھاتے ڈال کر خود جمہوریت کی بقا کے لیے میدان عمل میں کھڑے نظر آئیں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت یہ سارا کچھ کس کے لیے کر رہی ہے۔ ایک بات تو واضح ہے کہ کم ازکم یہ عوام کے لیے نہیں ہو رہا، یہ سارا کچھ حکمران اپنے اقتدار کو محفوظ بنانے اور مخالفین کو قابو کرنے کے لیے ،رسّے وٹ، رہے ہیں وزیر قانون دور حاضر کے نئے شریف الدین پیر زادہ ثابت ہو رہے ہیں۔ شریف الدین پیر زادہ روایتی طے شدہ طریقوں میں سے راستہ نکالتے تھے۔ جٹ پتر نے جٹوں والی کرتے ہوئے نئے راستے ایجاد کرنا شروع کر دیے ہیں۔ وہ نیا آئین تشکیل دے رہے ہیں نئی عدالتیں نئے ججز حکمرانی کے نئے طریقے ایجاد کر رہے ہیں۔ وہ نئے پاکستان کے خدو خال واضح کر رہے ہیں لیکن اس کے اثرات کی گہرائی کا کسی کو ادراک نہیں۔ یہ حکومت تو نئے وضح کردہ رولز آف گیم کو اپنے لیے استعمال کر لے گی لیکن آنے والی حکومتیں ان کو کس طرح استعمال کریں گی، مستقبل میں کس قسم کا کھلواڑ سامنے آئے گا اس کا کسی کو بھی اندازہ نہیں۔ پنجابی میں کہتے ہیں بعض دفعہ ہاتھوں سے دی گئی گانٹھیں دانتوں سے کھولنی پڑتی ہیں، قومیں مستقبل کو سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کرتی ہیں، مستقبل کی ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر سسٹم وضع کیے جاتے ہیں مگر ہم حال کی ضرورتوں کو سامنے رکھ کر پبلک کی بجائے شخصیات کو مضبوط اور بااختیار بنانے کے لیے قانون سازی کرتے ہیں۔ ویسے اتنا تردد کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ایک سطری دستور ہونا چاہیے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ہمارے ہر اقدام سے یہ نظریہ غالب ہوتا نظر آرہا ہے۔ ہر قانون سازی سے طاقت مزید طاقت پکڑ رہی ہے اور جمہوریت دفن ہوتی جا رہی ہے۔ حکمران انتظامی طور پر آئینی ترمیم اور قانون سازی سے مضبوط ہو رہے ہیں لیکن عوامی مقبولیت کی خلیج مزید وسیع ہوتی جا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام کو کسی کو مزید بااختیار کرنے اور کسی کو کمزور کرنے والی ترمیم یا قانون سازی سے کوئی سروکار نہیں۔ انھیں بجلی گیس کے بل مار گئے ہیں۔ ان سے روزگار چھن گیا ہے، ان کو مہنگائی لے ڈوبی ہے اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ عام لوگوں کے لیے سانسیں بحال رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔ حکمران اگر اپنے اقتدار کو استحکام بخشنے سے فارغ ہو جائیں تو لوگوں کو زندہ رکھنے کے لیے بھی کوئی ترمیم یا قانون سازی کر لیں۔۔حکمرانوں نے پارلیمنٹ کے ذریعے بظاہر تبدیلی کے سارے راستے بند کر دیے ہیں۔ تحریک انصاف کو جکڑ کر دیوار میں چنوا دیا ہے لیکن ایک راستہ ابھی بھی کھلا ہے اور وہ راستہ احتجاج کا راستہ ہے جو زیادہ خطرناک ہے۔ حکومت کی منصوبہ بندی کے مطابق قانونی راستے محدود کرنے کے بعد احتجاج کے راستہ کو وہ بزور طاقت روک لیں گے اور پی ٹی آئی کو پر مارنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ایسی صورتحال میں بانی پی ٹی آئی کی رہائی مزید مشکل ہو گئی ہے۔ اب پی ٹی آئی کے پاس تین راستے ہیں 1۔ اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کرلے اور اس ڈیل کے نتیجے میں بانی پی ٹی آئی کو رہائی مل جائے۔ 2۔ کسی بین الاقوامی دباؤ کے نتیجے میں رہائی مل جائے۔ 3۔ کوئی انقلاب آ جائے۔ ورنہ اب نہ تو احتجاجی جلسے جلوس اور ریلیاں کام آ سکتی ہیں نہ نظام انصاف رہائی دلا سکتا ہے۔ تحریک انصاف کا سفر اب بڑھ گیا ہے کیونکہ بقول وزیر دفاع سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع سے نظام کو تسلسل ملے گا۔ اس کا مطلب ہے سارا کھیل تسلسل کا ہے۔ سامان سو برس کا ہے، پل کی خبر نہیں۔

مزیدخبریں