پاکستانی میڈیا نے امریکی صدارتی
الیکشن کو ملکی الیکشن بنا دیا
امریکی صدارتی الیکشن میں پاکستانی میڈیا کی خصوصی زبردست دلچسپی دیکھ کر تو یوں لگ رہا تھا گویا یہ ہمارے اپنے الیکشن ہو رہے ہیں۔ لمحہ بہ لمحہ خبریں، تبصرے، معلومات، اطلاعات یوں پاکستانی میڈیا اپنے ناظرین تک پہنچا رہا تھا گویا ان الیکشن کا براہ راست تعلق پاکستان سے ہے اور ہم نے ووٹ کاسٹ کرنے ہیں۔ ہاتھی اور گدھے کے انتخابی نشان کی تاریخ سے لے کر وائٹ ہائوس کی تعمیر۔ اس کا رقبہ اس کے کمروں کی تعداد سے لے کر اس میں اب تک آنے والے مکینوں کی تفصیل تو خود امریکیوں کو بھی معلوم نہیں ہو گی نہ ان کی اس میں دلچسپی ہو گی۔ مگر نجانے کیوں ہمارا سارا میڈیا ہمیں امریکی معلومات ازبر کرانے پر تلا ہوا تھا۔ امریکی عوام خود سب سے بڑے گامڑ ہیں۔ انہیں شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک کے بارے میں تھوڑی سی معلومات ہوں۔ مگر یہ عام امریکی کی بات ہے۔ رہی بات امریکی حکومت اور اس کے تھنک ٹینکس کی تو وہ دنیا کے تمام ممالک کو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے، اپنی پالیسی کے مطابق چلانے کے لیے وہاں کے عوام اور حکمرانوں کی نس نس سے واقف ہیں۔ یہی ان کی کامیاب پالیسی کا راز ہے۔ شاید امریکی صدر بنتا ہی اس لیے ہے کہ وہ دنیا پر امریکی حکمرانی کے خواب کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھے اوراپنے نیو ورلڈ آرڈر پر عملدرآمد کرائے۔ اس کام کے لیے وہ رشوت، امداد ، طاقت اور جبر سمیت ہر وہ ممکن حربہ استعمال کرتے ہیں جس سے چھوٹے کمزور اور غریب ممالک بآسانی اس کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ اب تو دنیا جان چکی ہے کہ گدھا آئے یا ہاتھی امریکہ صرف اپنے مفادات کی نگہبانی کرتا ہے۔ اس کی راہ میں آنے والوں کو بے دردی سے کچل دیتا ہے یا دولتی مار کر کوسوں دور پھینک دیتا ہے۔ اب کوئی امریکہ کے نئے آنے والے صدر کو اپنے لیے اچھا خیال کرے یا بْرا۔ یہ اس کی مرضی ہے۔
٭٭٭٭٭
سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں اضافے پر کمال یکجہتی کا مظاہرہ
ہر ایک سے ماتھا ٹکرانے کا شوق رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہاں ایسا کرنے سے سر پھٹ بھی سکتا ہے لہٰذا سر بچانے کے لیے اس در پہ سر نہیں ٹکراتے۔ اب یہی دیکھ لیں 26 ویں اور 27 ویں آئینی ترمیم پر آسمان سر پر اٹھانے والے ہر ایک سے ٹکرانے والے ایک ایک نکتہ پر اعتراض کرنے والے اسے نامنظور قرار دینے والے جو زیر زبر اور پیش کی علامتوں پر بھی شور اٹھا رہے تھے، احتجاج کر رہے تھے کیسی سادگی سے مودبانہ انداز میں سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع والی شق پر خاموشی سے زبان بند اور سرتسلیم خم کیے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کہتے ہیں ناں کہ۔۔
پہلے تو اپنے دل کی ادا جان جائیے
پھر جو مزاج یار کہے مان جائیے۔
اب وہ توپ خانے جو مسلسل گولہ باری کر کے میدان گرم کئے ہوئے تھے، وہ بھی اب چھڑکائو کر کے میدان کی دھول بٹھا رہے ہیں۔ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ان کے کارکن جو اب تک جعلی اسمبلی جعلی حکومت جعلی ترمیم کے نعرے کو حزرجاں بنائے ہوئے ہیں وہ اب کیا کہیں گے۔ مولانا فضل الرحمن نے گزشتہ روز ہی سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع کو انتظامی معاملہ قرار دے کر کہا جو بھی آئے گا وہ جنرل ہی ہو گا۔ جب بھی آئے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ یوں ان کی طرف سے آگ اگلنے والی توپوں کو خاموش رہنے کا اشارہ دیدیا گیا ہے۔ دوسری طرف ہر قدم پر برسرپیکار سر پر کفن باندھ کر میدان میں اترنے والوں کی صفوں میں بھی بادصرصر کی جگہ بادصبا نے لے لی ہے اور ان کے ترجمان سلمان اکرم راجا نے بھی اسے انتظامی معاملہ قرار دے کر دامن بچا لیا ہے۔ شاید احتیاط کا تقاضہ یہی سمجھا گیا ہے۔ باقی اور کوئی بھی اس حوالے سے نہ تو پریشان ہیں اور نہ ہی حیران۔ یوں ہر طرف سکون اور سکوت ہے۔ سب اس کے اچھے نتائج ملنے کی امید رکھتے ہیں۔ ا س پر تو ’’یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ چلو کسی ایک نکتہ پر ہی سہی۔ یوں
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
کا نظارہ سامنے آیا ہے۔
٭٭٭٭٭
کراچی کی طرح اسلام آباد میں بھی بھتہ پرچی ملنے لگی ہے۔ جسٹس عامر فاروق۔
یہ بات ہم نہیں اسلام آبادہائی کورٹ کے چیف جسٹس کہہ رہے ہیں۔جو تازیانہ عبرت ہے۔
ایک آسان آمدنی کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے یہ طریقہ مقبول ہو گیا ہے۔ یہ بات کوئی اور کہتا تو اسے زیادہ توجہ نہیں ملتی کیونکہ سب جانتے ہیں کہ ہر جگہ یہ بھتہ خور مافیا جسے چاہتا ہے پرچی بھیج کر اس کے پیروں تلے سے زمین سرکا دیتا ہے۔ جو لوگ اس پرچی پر درج دھمکی کو ناقابل غور سمجھتے ہیں ان کیخلاف یہ مافیا کارروائی ڈالتا ہے۔ یہ اپنے شکار پر فائرنگ کر کے یا دوسرے ذرائع سے ڈرا دھمکا کر اسے مجبور کر دیتے ہیں۔ جان، مال اور عزت کسے عزیز نہیں۔ اطلاعات کے مطابق بڑے بڑے لوگ اعلیٰ حکام اور وزیر تک بھتہ خوروں کے نشانے پر ہیں اور بھتہ دیتے ہیں۔ مگر وہ بتا کر اپنی پوزیشن خراب کرنا نہیں چاہتے۔ اب ایک جج نے یہ بتا کر ہمارے سر شرم سے جھکا دئیے ہیں کہ ان کے قریبی عزیزوں کو بھی ایسی پرچیاں ملتی ہیں۔ اب کراچی اور اسلام آباد میں کوئی فرق نہیں رہا۔ جرائم پیشہ گروپوں نے اسلام آباد کو بھی آسان چارہ بنا لیا ہے۔ کراچی تو ایک بڑا شہر ہے۔ یہ منشیات، اسلحہ کی بڑی منڈی بن گیا ہے۔ جرائم کی شرح یہاں سب سے زیادہ ہے۔ مگر اسلام آباد میں تو آبادی کم اور تمام علاقے ترتیب سے ہیں۔ یہاں اردگرد کی کچی آبادیاں البتہ جرائم کے اڈے بن چکی ہیں۔ اکثر و بیشتر بھتہ خوری کی وارداتوں میں کالیں افغانستان سے ٹریس ہوئی ہیں۔ یا یورپی ممالک میں بیٹھے مجرم یہ کام اپنے مقامی کارندوں کی مدد سے کر رہے ہیں۔ اسلام آباد انتظامیہ نے اس پر سختی سے چیک نہ رکھا تو بھتہ خور مزید شیر ہو سکتے ہیں۔ اس سے پہلے ہی ان کے دانت توڑنے اور پنجے کاٹنا ہوں گے تاکہ لوگوں کو ان کے ہاتھوں لٹنے سے بچایا جا سکے۔
٭٭٭٭٭
عارضی نوعیت کی تمام پوسٹیں ختم کر دی جائیں۔ وفاقی حکومت کی ہدایت
پہلے کیا کم مسائل حکومت کو درپیش ہیں کہ اب یہ ایک نیا محاذ کھولا جا رہا ہے۔ اب یہ لوگ بھی ہائے ہائے کے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نظر آئیں گے کیونکہ ہمارے ہاں بیوروکریسی اور وزرا کی سفارش پر تقریباً ہر محکمے میں ان کے من پسند بندے بھرتی کرنے کے لیے عارضی آسامیاں تخلیق کی جاتی ہیں۔ اعلیٰ سے لے کر ادنیٰ تک یعنی چپڑاسی سے لے کر کلرک تک اگر طاقت زیادہ ہے تو پھر اس سے بھی بڑے افسر بھرتی ہوتے ہیں۔ عارضی کا مطلب ہے کسی بھی وقت ختم ہو سکتی ہیں۔ یہ آسامیاں 6 ماہ سے لے کر 3 سال تک نکال ہی لیتی ہیں۔ اس بات سے ہٹ کر کہ یہ درست ہے یا غلط مگر اس فیصلے سے زیادہ تر چھوٹے ملازمین ہی قربانی کا بکرا بنیں گے کیونکہ ان کو کون پوچھتا ہے۔ انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جائے مگر صوبوں میں تو اس حوالے سے جمعہ بازار لگا ہوا ہے۔ جنہوں نے سفارش کے ساتھ مال بھی خرچ کیا ہے وہ کیا آسانی سے ہار مانیں گے۔ اس حکومتی اعلامیہ میں ہی تفریق دیکھ لیں چھوٹے گریڈ یعنی ایک سے 3 یا 4 تک کے ملازمین یعنی مالی، چوکیدار ، سوئیپر، چپڑاسی کی پوسٹوں کوتو آئوٹ آف سورس کرنے کا کہا گیا ہے۔ یوں حکومت اس دردسری سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اب حکومت کے اس اعلامیہ کے بعد یہ سوئے ہوئے ورکر یونینوں کے ساتھ مل کر دیکھیں کیا اْودھم مچاتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
جمعرات‘ 4 جمادی الاول 1446ھ ‘ 7نومبر2024ء
Nov 07, 2024