امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اگلے سال اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ ان کو اس شاندار کامیابی پر دنیا بھر سے مبارکبادیں موصول ہونا شروع ہو گئی ہیں اور پاکستان، ایران، چین، سعودی عرب، اسرائیل، بھارت، برطانیہ اور ترکیہ سمیت دیگر ممالک کے سربراہان نے ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکا کا 47 ویں صدر منتخب ہونے پر مبارک باد دی اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے۔ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارتی انتخاب جیتنے پر مبارکباد پیش کی ہے۔ سعودی میڈیا کے مطابق سعودی قیادت نے نومنتخب امریکی صدر کو تہنیتی مکتوب روانہ کئے ہیں۔ چین کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی الیکشن میں کامیابی پر پہلے ردعمل میں کہا گیا ہے کہ امریکی عوام کے انتخاب کا احترام کرتے ہیں۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق چین کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک بار پھر صدارتی الیکشن میں کامیابی پر مبارک باد دیتے ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا کے لیے چین کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی لیکن باہمی احترام کی شرط پر مشترکہ مفادات پر مل کر کام جاری رکھیں گے۔ ترجمان چینی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکی عوام کے انتخاب کا احترام کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ اپنے گزشتہ دورِ حکومت میں ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے ساتھ اقتصادی جنگ چھیڑ دی تھی اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی اشیا پر بھاری ٹیکس عائد کیا تھا۔ اس تناؤ کا خاتمہ جوبائیڈن کے صدر بننے پر ہوا تھا تاہم اب خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ریپبلکن کے ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے پر کشیدگی میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ تاہم جیت کے بعد اپنے حامیوں سے پہلے خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ کوئی نئی جنگ شروع نہیں کرنا چاہتے بلکہ جو جنگ جاری ہے ان کا خاتمہ کریں گے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ترکیہ کے صدر طیب اردوان نے ٹرمپ کے نام سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں لکھا کہ میں اپنے دوست ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکا کا دوبارہ صدر منتخب ہونے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ ترک صدر نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ ٹرمپ کے نئے دور میں امریکا اور ترکیہ کے درمیان تعلقات مضبوط ہوں گے۔ برطانوی وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر نے بھی اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ برطانیہ اور امریکا آزادی، جمہوریت اور دیگر امور میں مشترکہ اقدار کے دفاع کے لیے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں گے۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے ڈونلڈ ٹرمپ کو سوشل میڈیا پر مبارک باد دی۔ انھوں نے کہا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو تاریخی واپسی پر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ آپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی امریکا کے لیے نئی شروعات ہیں۔ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ میں اپنے دوست ڈونلڈ ٹرمپ کو الیکشن میں تاریخی کامیابی پر مبارک باد دینا چاہتا ہوں۔ مودی نے ٹرمپ کے سابق دور کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ بھی امریکا اور بھارت کے درمیان تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔ پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے ڈونلڈ ٹرمپ کو اس تاریخی کامیابی پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے تیار ہیں اور امید ظاہر کی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے دوسرے دور حکومت میں پاک امریکہ تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔ ادھر ایران نے بھی ٹرمپ کی کامیابی پر محتاط انداز میں تبصرہ کیا ہے۔ ایرانی حکومت کی ترجمان فاطمہ مہاجرانی نے کہا ہے کہ امریکی انتخابات سے ایرانی عوام کی زندگیوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، امریکی انتخابات ہمارے معاملات نہیں ہیں، ہماری پالیسیاں مستقل ہیں اور افراد کے مطابق تبدیل نہیں ہوتیں، ہم نے ضروری پیش بینی کر لی ہے اور عوام کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں ا?ئے گی۔ دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے بھی اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے کامیاب ہونے پر ردعمل دیتے ہوئے حماس رہنما سمی ابو ذوہری نے کہا کہ ٹرمپ کو ان کے بیانات کے حساب سے جانچا جائے گا کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ وہ بطور امریکی صدر غزہ جنگ کو چند گھنٹوں میں روکیں گے۔ حماس پولیٹیکل بیورو کے ممبر باسم نعیم نے کہا کہ صیہونی ریاست کی اندھی حمایت ختم ہونی چاہیے کیونکہ یہ حمایت ہمارے لوگوں کے مستقبل اور خطے کے کی قیمت پر آتی ہے۔
افغانستان کی طالبان حکومت نے کہا ہے کہ امید ہے صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت امریکا کے ساتھ تعلقات میں نئے باب کا سبب بنے گی۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق افغان وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے ایکس میں اپنی پوسٹ میں کہاکہ افغان حکومت کو امید ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں ٹھوس پیش رفت کے لیے حقیقت پسندانہ اقدامات اٹھائے گی اور دونوں ممالک تعلقات کا نیا باب کھولنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ انہوں نے زور دیا کہ سابق صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے دور اقتدار میں طالبان کے ساتھ امن معاہدے کی سربراہی کی جس کے نتیجے میں امریکا کو 2021 میں انخلا کا راستہ ملا اور 20 سالہ قبضے کا خاتمہ ہوا۔
نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کی حمایت حاصل کرنے کے لئے ان سے خصوصی ملاقاتیں کیں۔ امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم نے خاص طور پر ری پبلکنز سے ملاقات کر کے اپنی کمیونٹی کے لئے وعدے لے کر ان کی حمایت تھی اور اب وہ پرامید ہیں کہ امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی کی مشکلات کم ہونے کے علاوہ پاک امریکہ تعلقات پر بھی اس کا مثبت اثر پڑے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے کامیاب ہونے کے بعد پاکستان میں عمران خان کے حامی پرامید ہیں کہ شاید ٹرمپ عمران خان کی رہائی میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن یہ قبل از وقت بات ایک مفروضہ ہی ہے۔ اگرچہ پاکستانی تارکین وطن کی بڑی تعداد ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے تاہم اس بات کی توقع ہے کہ امریکہ اپنی ترجیحات کی بنیاد پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو بھی نئے سرے سے ترتیب دے گا۔ اس کے علاوہ بہت سے دیگر عوامل جیسے افغانستان اور ایران کے علاوہ غزہ اور لبنان کے تنازعات بھی پاک- امریکا تعلقات پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ اگرچہ افغانستان سے انخلا کے بعد سے پاکستان امریکی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں شامل نہیں لیکن بین الاقوامی امور کے ماہرین کے مطابق امریکی پارلیمنٹیرینز کی جانب سے صدر بائیڈن کو عمران خان کی حمایت میں لکھے گئے خط کا معاملہ بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے دوبارہ اٹھایا جا سکتا ہے ۔