سمندر پار پاکستانی زندہ باد  

امیر محمد خان                                      
اس بات سے کسی ذی شعور کو انکار نہیں کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، بنیادی طور پر متعدد کلیدی خدمات کے ذر یعے، اسکا ڈھونڈرا ہر حکومت پیٹتی  ہے اتنی ہی تکالیف سمندر پار پاکستانیوں کو ہوتی ہیںشیشے کے گھروں میں بیٹھے سفارت کار  ( شیشے کا گھر اسلئے لکھا ہے کہ یہ بہت کمزور ہوتے ہیں  اپنی قابلیت پر  نہیں بلکہ  پرچیوںکی ، گجر ، آرائیں، چوہدری ،  ملک وغیرہ کا غلبہ ہوتا ہے  متعلقہ وزار ت کے وزیر کی آوء بھگت میں ذرا سی کمی آجائے تو وہ گھر کا راستہ سمجھا دیتا ہے اسلئے بے چارے اپنی ملازمت بچانے کیلئے اپنے سے اوپر ہر افسر کی آئو بھگت کرتے ہیں  ہر حکومت کی خواہش ہوتی ہے کہ  بیرون ملک پاکستانی ملک کا نام روشن کریںاور متحد رہیںیہ سفارت کار بیرون  ملک بیٹھ کر ہر شعبہ کی کمیونٹی میں وہ تفرقہ ڈالتے ہیں کہ اللہ کی پناء  عالم یہ کہ ’’ بغل میں چھری منہ پر رام رام  ‘‘ ملو تو انکے افکار سنکر  پاکستانی قائد اعظم کے افکار بھول جائے  اور زیادہ قریب ہوجائو تو انکی حکومت پر تنقید اتنی سخت ہوتی ہے ، چاہے سیاسی حوالے سے یا تحریک انصاف کی گند افواج پاکستان پر تنقید سے باز نہیں آتے ، تنخواہیںو مراعات  لیتے ہیں پاکستان کے غیریب عوام کے ٹیکسوں سے مگر ملک کیلئے کیا کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں وہ پوچھنے والا کوئی نہیں ، خود ہی  کمیونٹی میں تفرقہ پیدا کرکے جب کوئی حکومتی شخصیت سعودی عرب یاکسی ملک جاکر  کمیونٹی یا صحافیوں سے ملنا چاہے تو نوکر شاہی پیچھا چھڑاتی ہے یہ کہہ کر  ’’کمیونٹی تقسیم  ہے  ، صحافی تقسیم ہیں، یہ کارنامہ نہیںبتاتے کہ انہیںہم اپنی دکان چمکانے کیلئے گروپوں میں تقسیم کیا ہے ۔ بات ہورہی تھی بیرون ملک
 پاکستانیوںکی خدمات  ترسیلات ذر کے حوالے سے   ترسیلات   پاکستان کے لیے زرمبادلہ کا ایک اہم ذریعہ بن چکی ہیں جو ملکی جی ڈی پی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ حالیہ برسوں میں ترسیلات زر اکثر 20 ارب ڈالر سالانہ سے تجاوز کر چکی ہیں جس سے معیشت کو تقویت ملی ہے اور پاکستانی روپے کو مستحکم کرنے میں مدد ملی ہے بہت سے بیرون ملک مقیم پاکستانی ملک کے اندر مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، جن میں رئیل اسٹیٹ، کاروبار اور اسٹارٹ اپ شامل ہیں۔ یہ سرمایہ کاری نہ صرف روزگار پیدا کرنے میں مدد کرتی ہے بلکہ معاشی ترقی کو بھی متحرک کرتی ہے۔بیرون ملک مقیم پاکستانی اکثر بیرون ملک مہارت حاصل کرتے ہیں جو پاکستان واپس آنے یا کاروبار کے قیام کے ذریعے فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔ علم کی اس منتقلی سے مقامی صنعت میں پیداواری صلاحیت اور جدت طرازی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔بیرون ملک تعلیم کا تجربہ پاکستان کے مجموعی انسانی سرمائے میں حصہ ڈالتا ہے۔ کچھ اعلی درجے کی ڈگریوں اور مہارتوں کے ساتھ واپس آسکتے ہیں جو انجینئرنگ، طب اور ٹکنالوجی سمیت مختلف شعبوں میں مدد کرسکتے ہیں۔: سمندر پار پاکستانیوں کی خرچ کرنے کی طاقت مقامی کاروباروں اور صنعتوں کی بھی مدد کرتی ہے کیونکہ وہ اکثر اپنے آبائی ملک سے مصنوعات اور خدمات خریدتے ہیں اور مقامی معیشتوں میں حصہ ڈالتے ہیں۔مجموعی طور پر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی خدمات کثیر الجہتی ہیں اور پاکستان کی معاشی ترقی اور استحکام پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ قومی پالیسی اور اقتصادی حکمت عملی کے بارے میں بحث میں ان کے کردار کو تیزی سے  تسلیم کیا جاتا ہے۔ایسے فائدہ مندعوامل کے حامل سمندر پار پاکستانیوںکی جو معیشت کی خوشحالی میں کلیدی رول ادا کررہے ہیں انکا یہ حق تو بنتا ہے کہ ان منسوب وزارتیںہی کیا ملک کی ہر وزارت ہر شعبہ میں سمندر پار پاکستانیوںکی حوصلہ افزائی کرے گہری تحقیق کے بعدسفارتخانوں ، قونصل خانوںسے  ایسے عناصر کو  فوری ملک واپس بلاجائے وہ جس ملک میں بھی ہوں جو کمیونٹی میں تفرقہ کیلئے کام کررہے ہیں جو  حکومت وقت یا عسکری قیادت کے ہمراہ  زہر افشانی کررہے ہوں، ایسے عناصر تو کسی معروف حزب اختلاف سے بھی زیادہ  خطر ناک ہیں جو پاکستان میں حزب اختلاف کا کردار ادا کررہے ہیںیہ لوگ تو حکومت کی صفوں میں بیٹھے ہیں اسکی جڑیں کاٹ رہے ہیںاس میں ایک رول انکا بھی ہے جو  میرٹ کو نظر انداز کرکے میرٹ پرپورے نہ اترنے والوں کو ترقیاں کرتے ہیںجب ایک غیر معیار میرٹ سے کونسوںدور کو ملکی ذمہ داری  دے دی جائے گی وہ خود تو گرے گا ہی مگر کسی اور کو بھی نقصان پہنچائے گا ۔ بیرون ملک سے مختلف وزاراء کو  لوگ  مشورے ، شکایات بھیجتے ہیںجسے وزیر اور وزراتیں ’’دیوانے کی بڑ ‘‘سمجھتے ہیںجو  ایک خطرناک عمل ہے  وزراء کی ڈیوٹی  ہے کہ وہ ملک کے نمک کا حق کیسے ادا کرتے ہیںبیرون ملک پاکستانی عزت و احترام کے کتنے مستحق ہیںاسکا اندازہ انکی ملک کو بھیجی جانے والی قانونی  ترسیلات سے لگایا جاسکتا ہے  اسکے باوجود کہ نوکر شاہی حکومت کے قدم جمنے پر خوش نہیں مگریہ  حقیقت ہے میاں شہباز شریف اور اتحادیوںکی حکومت قدم جما چکی ہے حکومت کے قدم کتنے جم چکے ہین معیشت کتنی مضبوطی کی طر گامز ن ہے اسکا اندازہ  stock exchange  کا رجحان دیکھ کر ہوسکت ہے رواں مالی سال کے دوران پاکستان میں ترسیلات زر میں اضافے کا رجحان دوبارہ شروع ہونے کا امکان ہے اور ملک کے مثبت معاشی اشاریوں کی بنیاد پر ترسیلات زر 28 ارب ڈالر سے تجاوز کرنے کا امکان ہے۔مالی سال 2023-24 کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران 90 لاکھ سے زائد بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے 18.083 ارب ڈالر وطن بھجوائے جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے 18.308 ارب ڈالر کے مقابلے میں سال بہ سال 1.2 فیصد کمی کو ظاہر کرتا ہے۔فروری 2024ء کے دوران ترسیلات زر بنیادی طور پر سعودی عرب (539.8 ملین ڈالر)، متحدہ عرب امارات (384.7 ملین ڈالر)، برطانیہ (346.0 ملین ڈالر) اور ریاستہائے متحدہ امریکہ (287.4 ملین ڈالر) سے موصول ہوئیں۔ یورپ اور دیگر جی سی سی ممالک میں مقیم اوورسیز پاکستانیوں نے بھی فروری 2024 میں 245.4 ملین ڈالر اور 241.7 ملین ڈالر وطن بھجوائے۔ترسیلات زر کے معیشت پر اثرات کثیر الجہتی ہیں۔ وہ گھرانوں کو اضافی آمدنی فراہم کرکے غربت کے خاتمے میں مدد کرتے ہیں، جسے کھپت، بچت یا سرمایہ کاری کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ترسیلات زر کھپت اور سرمایہ کاری کی سطح کو بڑھا کر ملک کی مجموعی معاشی ترقی میں بھی کردار ادا کرتی ہیں۔مزید برآں، حالیہ مہینوں میں عالمی معیشت کا نقطہ نظر بہتر ہوا ہے، جس سے غیر مقیم پاکستانیوں کو کمانے اور بھیجنے میں مدد ملی ہے۔آنے والے  رمضان المبارک اور عید کی خوشیوں کی وجہ سے ترسیلات زر میں مسلسل اضافے کی توقع ہے کیونکہ غیر مقیم پاکستانی اپنے اہل خانہ کو باقاعدگی سے رقم کے علاوہ زکوٰۃ، صدقات اور عید کی تقریبات کے لیے زیادہ رقم گھر بھیجتے تھے۔اپنی محنت کی کمائی کو قانونی طریقے سے ملک میں بھیجنا اس سے زیادہ محب وطنی کا سرٹیفکٹٹ مزید کیا ہوگا ۔ سمندر پار پاکستانی زندہ باد  
 
 

ای پیپر دی نیشن