کیاعمران خان اب جیل میں اپنے بیانئے سے دستبردار ہو گا

طاہر بھلر 
                                                       یاد ہو گا کہ جب عمران خان نے دو ہزار چودہ کو جب دھرنا دیا تو تمام کہہ رہے تھے کہ یہ دھرنا چھوڑ کر بھاگ جاے گا، لیکن اس نے چار ماہ سے  زیادہ دن کا دھرنا دے کراس وقت کی فوجی کمان کو قائل کر لیا کہ وہ مستقل مزاجی سے مشکل ترین کاموں کا خطرہ مول لے سکتا ہے اگرچہ مولانا طاہر لا قادری بھی اس احتجاج میں ان کے ہمراہ تھے اور یاد رہے کہ اگر وہ عمران خان کے ساتھ دھرنا میں اتنی تعداد میںخواتین و مرد افرادا نہ لاتے  تو یہ دھرنا کامیاب  نہ ہوتا لیکن اس کا کریڈٹ تمام عمران خان لے گیا۔  بعد ازاں جب وہ ایسٹبلشمنٹ کی مدد سے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہو گیا، تو شہبار شریف نواز شریف اور زرداری  نے قومی اسمبلی میں جمہوریت کے لئے اکٹھے چلنے کے واضح پیغام دیا اور ملک کے لئے اکٹھے چلنے کا عزم ظاہر کیا تھا لیکن ان تمام سیاسی لیڈروں کی توقعات کے بر عکس اس نے اپنی جوابی تقریر میں یہ کہہ دیا کہ یہ تمام سیاسی پیش کش کرنے والے سارے کرپٹ ہیں ان سے کوئی سمجھوتا نہیں ہو سکتا۔اور وہ ایک پاور فل حکمران کے طور پر حکومت کرنے میں کامیاب رہا۔ اس نے اس دور میں فوج کے چیف تک کی بھی بات نہ مانی اور اس طرح اپنا  علیحدہ تشخص ،ووٹ بنک بنانے میں کامیاب ہو گیا ۔ اس کی پارٹی کے اکثر لیڈر یہ سمجھنے لگ گئے کہ یہ شخص کسی سامنے جھک کر کسی شخص کی بات نہیں مانے گا۔اس کی یو این او کی تقریر جو مسلم امہ کے لئے اس نے کی تھی ،  اس نے  اس کوبینالاقوامی طور پر پر روشناس کرایا، دنیا کے  دوسرے لیڈر اسے یک بڑے لیڈر کی حیثیت دینے پر مجبور ہوگئے۔بعد ازاں اس کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں بھی اس نے فوج کی مدد کی بجائے عوامی  رائے کے حصول کی طرف توجہ دے کر اپنے تئیں عوامی مقبول رہنما منوانے میں کامیاب ہو گیا اور اس کے بعد اس نے آج تک پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا نہ اس نے فوجی قیادت کے سامنے جھکنے کا کوئی تاثر تک نہ دیا ۔قارئین  اس کے بعد اس کا لانگ مارچ ، اسلاماباد پر چڑھائی، اس کی جرات رندانہ کا ثبوت ہے ۔ یہی وہ وقت تھا جب اس نے بھٹو کی طرح  امریکا کوبھی للکاراعوام میں کھلے عام ایمل کانسی ، بھٹو ، عافیہ صدیقی اور کیا ہم غلام ہیں کے نعرے لگاے اور آج وہ عوام کی نظروں میں ایک ہیرو بن 
 چکاہے۔ایسٹبلشمنٹ کو اس وقت جب وہ ہر ایک کو بشمول سیاسی اپوزیشن جیلوں میں ڈالنے کا اعلان کررہا نھا، کہ اس نے ان کو بھی نہیں چھوڑنا اور وہ ہی ہوا کے اس نے فوجی وائی کمان کو بھی رگیدنا شروع کر دیا کہ فوج کو ایک جانور سے تشبیہ دینے سے گریز نہ کیا  حتی کے نو دو ہزار تیس کو مئی کو عوام چھاونیوں پر حملہ آور ہو گئے ۔یہ تمام بتانے کا مدعا یہ ہے کہ بشمول فوج بھی اس کی کپتانی سے لے کر قومی سیاسی محاذ پر آخری گیند تک لڑنے کی جبلت ، فطرت سے واقف نہ تھی  قارئین آپ کو یاد ہو گا کہ اسی طرح بھٹو انیسو ستتر کو کہا تھا کہ میں فوجی جرنیلوں کو دیکھ لوں گا ، اور مقدمات کا سامنا کروں گا۔ اس زمانے میں سیاسی ورکروں پر کوڑے مارے جانے کا رجحان عام تھا جیسا کے آج کل نو مئی کے بعد ہر دوسرا پی ٹی آئی کا روکر پابند سلاسل تو ہے ہی اب تو ان سیاسی کارکنوں کے خاندانوں کے لوگوں بشمول خواتین کے ہراسانی کے ساتھ بد تمیزی ،تشدد ، ہرا سانی کے کیسز کافی زیادہ منظر عام پر آ رہے ہیں۔ آج عمران خان ایک سال سے زیادہ عرصہ سے پایند سلاسل ہے، لیکن میری رائے میں، اس نے جتنے یو ٹرن لینے تھے لئے پہلے لے لئے، اب وہ یو ٹرن نہیں لے گا اور جان کی بازی تک لڑے گا۔ اس طرح یہ ایک دوسرا بھٹو کی طرح کا ناقابل شکست عوامی رہنما کی شکل اختیار کر رہا ہے جس کو شکست دینے کے لئے لئے فوج کو ایک حریف کے طور نہیں بلکہ ایک ایسی سوچ پر عمل پیرا ہونا ہو گا جس سے جیسے عوام پہلے اپنی فوج سے محبت کرتی تھی اسی طرح نہیں تو اسی ڈگر پر عوام فوج کے بارے میں مثبت سوچنا شروع کر دے ۔ کاش ایسا ہو کہ فوجی قیادت افہامو تفہیم سے کام لے اور پلوں کے نیچے جو پہلے اتنا پانی بہہ چکا ہے ، اس کی سیلانی تھم جائے اور عوامی سیاسی قیادت 
اور سیاسی لیڈرز بھی دور اندیشی سے کام لیں اور فوج بھی اپنی ویٹو پاور اور طاقت کا استعمال ترک کرنے کا سوچے۔صیہونی عزایم یہ بتا رہے ہیں کہ وہ ملک میں پولارائزیشن بڑھائیں تا کہ فوج اور عوام میں اور دوریاں پیدا ہوں اور پچیس کروڑ کا یہ ملک اپنے ہی ہاتھوں ایک دوسرے سے اندرون ملک خانہ جنگی کا شکار ہو کر  خدا نخواستہ بھسم ہو جائے۔اس سے پہلے بھی سندھ میں بے نظیر کے قتل کو خون کے گھوٹ پی کر برداشت کیا جارہا ہے ، ایسے ہی بھٹو کی پھانسی بھی فوج کے ائے کوئی مانے یا نہ مانے ، فوج کے لئے اور ملک کے لئے ایک کالا داغ ثابت ہو ا ہے ۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق لیتے ہوے ایک دوسرے سے انا  اور میں میں کے بجائے کی ببجائے برداشت پیدا کرنا ہو گی۔بقول نیلسن منڈیلا ، افریقۃہ کی آزادی کے لئے مجھے دشمن قابضوں کے ساتھ مذاکرات کرنے پڑے تھے کہ طاقتور کے ساتھ مذاکرات کرکے ہی میں اپنے ملک کے لئے آزادی حاصل کر سکا ۔ بھئی یہ تو پاکستانیوں کا آپس کا معاملا ہے بیٹھ کر افہام وخرد سے مذاکرات کر کے جمہوریت کو حقیقی موقع دیجئے  اور عمران خان جو اس وقت عوامی جذبات کا ترجمان ہے ، اس کو حرف غلط کی طرح مٹانے کی کوشش صریحا ملک اور قوم سے نا انصافی ہوگی اور فوج اور دوسرے سیاسی زعما کو ایسے عملی اقدام کرنا چاہیے کہ فوج کے ساتھ پیار کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جائے نہ کہ ماضی کے طرح ان کے خلاف جذبات بھڑک اٹھیں، ایسے حالات میں کسی کے ہاتھ بھی کچھ آنے والا نہیں۔ اسی طرح بلوچوں کو  غیر مطمعن درماینے طبقے  جو وڈیروں کے کنٹرول میں اب نہیں  ہیں ، ان کے ساتھ درشت رویہ کے بجائے ان کے ساتھ محبت سے پیش آکر مسیگ پرسنز کا مسعلہ بھی مذاکرات سے حل کر کے فوج  اکبر بگٹی کے قتل کے بعد  ان کے باغیانہ خیالات پر مرہم رکھنے کی سب سے بہتر پوزیشن میں ہے اور اس کے پاس اس کی طاقت اور وسائل بھی ہیں۔ اگر ہماری ریاست کے خفیہ ادارے اور بطور ریاست افغانیوں اور انڈین سے مذاکرات کر سکتے ہیں تو اپنے بلوچوں اور دوسرے پاکستانیوں سے کیوں نہیں  ۔مذاکرات سے ان کے بی ایل اے کی سرگرمیاں ماند  پڑ سکتی ہیں اگر فوری ختم نہ بھی ہوں تو۔     

ای پیپر دی نیشن

’’پاکستان تحریک احتجاج‘‘

آواز خلق فاطمہ ردا غوری  زمانہ قدیم میں بادشاہ و امراء اپنی ذاتی تسکین کی خاطر تعریف و ثناء کے پل باندھنے والے مداح شعراء ...