آواز خلق
فاطمہ ردا غوری
زمانہ قدیم میں بادشاہ و امراء اپنی ذاتی تسکین کی خاطر تعریف و ثناء کے پل باندھنے والے مداح شعراء کو دربار کی خاص زینت بنایا کرتے تھے ان کا کام دن رات بادشاہ وامراء کی شان میں قصیدہ گوئی ہوا کرتا تھا
آج کے دور میں غور کیا جائے تو الفاظ کے ہیر پھیر کے علاوہ بدلا ہی کیا ہے ہاں البتہ بدترین ضرور ہوتا جا رہا ہے موجودہ دور میں بھی مداح پائے جاتے ہیں لیکن ہمارے یہاں ’’مداح‘‘ ’’مزاح‘‘ کی صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں یہ مدا ح تعریفوں اور قصیدہ خوانی سے بہت آگے نکل چکے ہیں اتنا آگے کہ صحیح اور غلط کی پہچان بھی باقی نہیں رہی !!!
چند روز قبل قاضی فائزعیسی کو برطانیہ کی قدیم ترین درسگاہ مڈل ٹیمپل میں بطور بینچر شامل کیا گیا اس سلسلے میں ان کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد کیا گیا اس تقریب کا اعلان سامنے آیا ہی تھا کہ پی ٹی آئی نے برطانیہ میں موجود اپنے اوورسیز مداحوں کو احتجاج کی کال دے دی اور سابق چیف جسٹس مذکورہ تقریب میں اپنی اہلیہ کے ساتھ شرکت کرنے کے بعدنکلے تو اسی وقت انہیں پی ٹی آئی ورکرز کی جانب سے حملے ، بد مزگی بلکہ بد تہذیبی کہنا ذیادہ مناسب رہے گا کا سامنا کرنا پڑا
پی ٹی آئی اور قاضی فائز عیسی کے مابین اختلافات کوئی نئی بات نہیں یہ اختلافات تو قاضی فائز عیسی کے چیف جسٹس بننے سے قبل ہی شروع ہو گئے تھے لیکن ہمارا موضوع آج یہاں گڑھے مردے اکھاڑنا نہیں بلکہ ہمیں یہاں محض اس افسوس کا اظہار کرنا ہے کہ یہ مداح خاں صاحب کے لئے تو یقینا رحمت ہیں لیکن پاکستان کے لئے ایک عرصہ ہوا زحمت کا سامان بنے ہوئے ہیں پاکستان میں تو افراتفری، انتشار اور بے راہ روی کو فروغ دے ہی چکے ہیں لیکن اب کی بار تو حد ہی ہو گئی ہے جب یہ مداح پاکستان سے باہر بھی زحمت بلکہ ہزیمت کا باعث بن کر سامنے آئے !قاضی فایز عیسی سے تمام تر اختلاف ایک جانب لیکن اس تقریب میں ایک پاکستانی شخصیت کو برطانیہ کی قدیم ترین قانونی درسگاہ میں بطور بینچر منتخب کیا گیا تھا جو کہ بلاشبہ پاکستان کے لئے باعث صد افتخار تھا اور کچھ نہیں تو کم از اس موقع پر تو پاکستان کے وقار کی غیر ملک میںاس قدر بھونڈے انداز میں دھجیاں مت اڑائی جاتیں !!!
ویسے غور طلب امر ہے کہ جب بھی پاکستان کی ترقی و خوشحالی اور عزت و تکریم کی بات آتی ہے وہیں پی ٹی آئی کو کسی نہ کسی صورت احتجاج کرنے کا خیال آخر کیونکر آنے لگتا ہے اور یہ اتفاق بار بار کیوں ہوتا ہے؟
وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ پی ٹی آئی کا مخفف ’’پاکستان تحریک انصاف ‘‘ کی بجائے
’’ پاکستان تحریک احتجاج ‘‘مان لیا جائے تاکہ نام اور کام میں کچھ مماثلت تو دکھائی دے !!!
شنگھائی کانفرنس پاکستان میں خوش آئند پیش رفت کے حوالے سے اہمیت کی حامل تھی اس حوالے سے ایس سی او کا سربراہی اجلاس ۱۵ اور ۱۶ اکتوبر کو اسلام آباد میں ہونے والا تھا جس میں چین روس اور بھارت سمیت دیگر ممالک کے سربراہان اور نمائندے شرکت کرنے والے تھے جو کہ ایک قابل فخر اور خوش آئند امر تھا لیکن عین ۱۵ اکتوبر کو ہی پی ٹی آئی کی جانب سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ڈی چوک پر احتجاج کا اعلان کر دیا گیا
مزید حب الوطنی کا عالم یہ تھا کہ ملکی ترقی کے حوالے سے اس قدر اہم کانفرنس میں پی ٹی آئی کی اعلی قیادت کی جانب سے شمولیت کی زحمت بھی نہیں کی گئی ! اس سے قبل ملائشیا کے وزیر اعظم پاکستان تشریف لائے تو وزیر اعلی خیبرپختونخواہ نے تخریب کاری پھیلانے کی آخری حد تک کوشش کی اور اسلام آباد ڈی چوک پر افراتفری اور طوفان بدتمیزی کا مظاہرہ کیا ڈی چوک کو تو گویا ان احتجاج کے متوالوں نے خالہ جی کا واڑہ سمجھ رکھا ہے۔۔ کافی عرصہ پہلے خاں صاحب کے حوالے سے انتہائی احتیاط کے ساتھ لکھا تھا کہ ’’انوکھا باولا کھیلن کو مانگے پاکستان ‘‘ لیکن آج گزشتہ سے پیوستہ حالات پر نظر دوڑائی جائے تو یہ تبدیل شدہ مصرعہ سولہ آنے درست معلوم ہوتا ہے کہ درحقیقت پاکستان کے ساتھ کھلواڑ ہی تو کیا جارہا ہے ۔۔
ابھی تو ہم پاکستانی ۹ مئی کی تباہ کاریوں کو ہی بھلا نہیں پائے تھے کہ یہ جوشیلے مداح ایک سے ایک کاری ضرب لگائے چلے جا رہے ہیں
پی ٹی آئی کی قیادت کو سوچنا ہو گا کہ بھلے ہی یہ ناقص العقول ٹولے مداح ہیں لیکن مزاح کے ساتھ ساتھ یہ پاکستانی بھی تو ہیں پھر ان شخصیت پرستی کی لعنت میں مبتلا ، عشق کے متوالوں لیکن پاکستانیوں سے اپنے ہی ملک میں افراتفری اور انتشار پھیلانے کا کام لینا ،انکی اپنی ہی ملکی تنصیبات ، املاک کو نقصان پہنچانا ،اپنے ہی ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنا اور اپنے ملک کے لئے قابل فخر اقدامات کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کرتے رہنا کہاں کی انصاف پسندی اور دانائی ہے ؟؟یہ تمام جاہلانہ اور غاصبانہ کام
چہ معنی دارد ؟؟؟
صدیوں پہلے اعتقاد پایا جاتا تھا کہ بادشاہ کو خدا بنا کر بھیجا جاتا ہے اور رعایا کا کام فقط اسکی اطاعت کرنا ہوتا ہے آج ہم جو بظاہرلبرل ہیں، عقل کل ہیں ، مادر پدر آذاد ہیں اپنا اچھا برا سمجھ سکتے ہیں اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا ہم وہ کر رہے ہی جو عقل وشعور رکھنے والے کرتے ہیں یا ہم اسی زمانہ جاہلیت میں دوبارہ آن کھڑے ہوئے ہیںاور اس چراغ کا کردار ادا کر رہے ہیں جس کی بدولت اسکے اپنے ہی گھر کو آگ لگ جایا کرتی ہے !!
اگر عوام کی اکثریت جو بچاری ایک طویل عرصہ سے اپنے حالات کی ماری ہے آپ سے بہتری کی امید لگائے آپ کی مدح سرائی میں ہر حد سے گزر جانے پر تیار ہے تو ان مداحوں کی محبت کا ناجائز فائدہ مت اٹھائیں بلکہ ایسے اقدامات کریں کہ ان کا مان بھرم قائم رہ سکے وگرنہ جلد یا بدیر آنکھیں کھل جانا تو ہم پاکستانیوں کا ہمیشگی وطیرہ ہے اور اسکے بعد آپکی واحداکلوتی طاقت جو کہ مداحوں کی محبت ہی ہے وہ بھی
نا امید ہو گئے تو عین ممکن ہے کہ پھر چراغوں میں روشنی نہ رہے !
اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے ملکی سالمیت اور بہتری کے لئے قدم بڑھائیں کیونکہ جس ملک کی محبت اور ترقی کا دم بھرتے ہوئے آپ تا دم تحریر تھکتے نہیں اسی کی سا لمیت کے در پے ہو جانا آپ کو کسی طور زیب نہیں دیتا !!!