کیا ٹرمپ غزہ میں جنگ ختم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟

امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت نے اسرائیلیوں میں امید پیدا کی کہ ان کی نئی انتظامیہ غزہ کی پٹی میں ایک سال سے زائد عرصے سے جاری جنگ کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

اس ماحول کی عکاسی گذشتہ روز اسرائیلی عوامی حلقوں میں دیکھی گئی۔ خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق بہت سے اسرائیلیوں نے اس انتخاب پر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ریپبلکن صدر "امن قائم کرنے کی اہلیت" رکھتے ہیں۔اسرائیل کے عبرانی میں نشریات پیش کرنے والے چینل 12 نیوز کے مطابق گذشتہ ہفتے ایک رائے عامہ کے سروے سے ظاہر ہوا کہ 66 فیصد اسرائیلیوں کو امید ہے کہ وہ ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس میں واپس دیکھیں گے۔دوسری جانب غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جنگ کے سانحات کی زندگی گزارنے والے بہت سے فلسطینیوں نے ٹرمپ کی واپسی پر خدشے کا اظہار کیا۔کچھ فلسطینیوں کا خیال ہے کہ تل ابیب کے بارے میں امریکی پالیسی تبدیل نہیں ہوگی چاہے وائٹ ہاؤس میں کوئی بھی آئے۔حماس اور فلسطینی اتھارٹی کے رہ نماؤں نے ٹرمپ سے امن کے لیے کام کرنے پر زور دیا۔اسرائیل کی شرائط کے مطابق متعدد ماہرین کا خیال ہے کہ غزہ سمیت دنیا بھر میں جنگیں ختم کرنے کے ٹرمپ کے وعدے پیچیدہ حقیقت سے ٹکرا سکتے ہیں۔العربیہ/الحدث کے متعدد مبصرین نے کہا کہ امریکی صدر جنگ بندی کا معاہدہ کر سکتے ہیں لیکن یہ اسرائیل کی شرائط اور مفادات کے مطابق ہوگا۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو جنگ بندی پر راضی کرنے کی ترغیب دی ہے؟ تو انہوں نے کہا ’نہیں‘ میں نے ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ وہ جانتے ہیں کہ میں نے اس معاملے کو ختم کرنے کی ترغیب دی۔ میں نے کہا تھا کہ اس معاملے کو جتنا جلدی ہو ختم کریں مگر جنگ میں اسرائیل کی فتح بھی ضروری ہے۔اپنی انتخابی مہمات کے دوران انہوں نے کہا کہ "اسرائیل کا علاقہ نقشے پر چھوٹا دکھائی دیتا ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس بارے میں سوچ رہے ہیں کہ اسے کیسے بڑھایا جائے۔سات اکتوبر 2023ء کو غزہ کی پٹی میں اسرائیلی بستیوں اور فوجی اڈوں پر حماس تحریک کے حملے کے بعد اسرائیلی جنگ شروع ہوئی۔ اس جنگ کو ایک سال سے زائد عرصہ گذرچکا ہے۔جنگ کے نتیجے میں 43 ہزار سے زائد فلسطینیوں کی ہلاکت اور غزہ کی دو تہائی عمارتوں کو تباہ کردیا گیا ہے۔دریں اثنا اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے خاتمے اور جنگ بندی کے حصول کے لیے مصر، قطر اور امریکہ کی قیادت میں کئی ماہ کی علاقائی اور بین الاقوامی ثالثی ناکام رہی۔

ای پیپر دی نیشن