پاکستان اور خطے کی سیاست__ بین الاقوامی سازشوں کی لپیٹ میں

سونے کی چڑیا کی پھڑپھڑاہٹ اب اس کے آنگن ہی نہیں دور یورپ تک بھی سنائی دے رہی تھی۔ برصغیر جسے گوروں نے ’’گولڈن سپیرو‘‘ کا نام دیا تھا یقینا اس وقت خطے کا معاشی طور پر مضبوط ترین گڑھ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تجارت کے نام پر کبھی مہارت کے نام پر اس تک انگریز کی نظریں اٹھ چکی تھیں۔ سولہویں صدی کے اواخر میں ایک انگریز سیاح نے جو ڈاکٹر تھا شہنشاہ ہند کی ملکہ کا علاج کیا اور صلے میں اس ڈاکٹر نے شہنشاہ سے تجارت کی سہولت مانگ لی۔ بس وہ دن پھر ان کو پائوں جمانے کے لیے کافی وقت مل گیا اور برصغیر کے لوگ گوروں کی چالوں کو نہ سمجھ سکے جب انگریز اپنے قدم جمانے میں مصروف تھے تو ٹھیک انہی دنوں فرانسیسیوں کی نظریں بھی اس سونے کی چڑیا کی طرف اُٹھ چکی تھیں اور انہوں نے بھی برصغیر کا رخ کر لیا یہی وجہ ہے کہ جب میسور کے حکمران حیدر علی اور اس کے بہادر بیٹے سلطان ٹیپو نے انگریز کے قدم روکنا چاہے تو اس سلسلہ میں انہیں بیرونی امداد حاصل تھی اور وہ کوئی اور نہیں فرانسیسی فوجیں ان کی مدد کے لیے پہنچ چکی تھیں مگر انگریز زیادہ چالاک اور خطے کو سمجھ چکے تھے لہٰذا وہ مقامی بااثر افراد تک رسائی حاصل کر چکے تھے اور لالچ دے کر ان کو ساتھ ملایا جا چکا تھا اسی لیے اقتدار اور قبضے کے اس کھیل میں فرانسیسیوں کو شکست ہوئی اور انگریز اپنی چالوں سے یہ معرکہ جیت گیا اس طرح ایک ڈاکٹر کی صورت میں برصغیر کے ساحلوں پر آنے والے یہ انگریز سونے کی اس چڑیا کے نئے مالک بن بیٹھے۔ یہ دراصل اس وقت کے مسلمان مغل حکمرانوں کا جو کہ ترک النسل تھے اپنے اصلاف سے ہٹ جانے کی وجہ تھی ۔ ساڑھے تین چار سو سال تک برصغیر ہند پر حکمرانی کے چراغ روشن کرنے والے مغل حکمرانوں کے جاں نشیں اس حد تک نکمے ثابت ہوئے کہ جب انہیں خبر کی گئی کہ دشمن کی فوجیں محل کے اندر داخل ہو گئیں ہیں تو شراب و سرور میں ڈوبے حکمران کے الفاظ تھے ہم ان کو تبلے اور ڈھولکی مار مار کر ختم کر دیں گے کہ ہنوز دلی دور است۔ دراصل برصغیر ہند کاروایتی مزاج اس قدر میزبانہ تھا کہ انگریزوں کی برصغیر آمد سے چند سو سال قبل جب محمد بن قاسم نے اس پر چڑھائی کی تو اسے راجا داہر کے بعد کوئی خاص مزاحمت دیکھنے کو نہ ملی اور پھر سلاطین خلافت کے دیگر جرنیلوں نے جب چاہا برصغیر کی مٹی کو اپنے پائوں تلے روندا یہاں سے لوٹ مار کی اور واپس چلتے بنے۔ سلطان محمود غزنوی نے 17حملے اس سونے کی چڑیا پر کیے اور جی بھر کر اس خطے کی دولت سمیٹی اور واپس چلتے بنے ،یہی وجہ ہے کہ محمد بن قاسم سے لے کر سلطان تیمور تک سال ہا سال تک یہ خطہ طالع آزمائو ں کے زیر اثر رہا اور یہاں پر ایک سلطنت قائم نہ کی جا سکی۔
انگریز اس خطے کے مزاج کو سمجھنے والا پہلا حکمران تھا جس کو اس برصغیر کے لوگوں کی سوچ اور ذہنیت پر مکمل اپروچ تھی یہی وجہ ہے کہ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے اس نے مقامی لوگوں کے ذہنوں میں غداری کی ایک نئی روایت کو جنم دیا اور پھر اپنے حواریوں کو نوابی، جاگیرداری حتیٰ کہ نچلی سطح پر ذیلداری اور نمبرداری تک بھی بخشنی جاری رکھیں اور خطے کے عوام کو ہمنوا بنانے اور اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے انگریز سرکار نے ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا ،سڑکیں ،پل، ریلوے، ڈاک خانہ، مواصلات کا مکمل نظام آج بھی انگریز طرز حکومت کی پہچان ہے۔ سکول بنائے گئے، حکومت کی اصل عملداری کے لیے تھانہ سسٹم قائم کیا گیا جبکہ اس سے پہلے مغل حکمران اور جنگجو سلاطین نے خطے کے عوام کو ان سہولتوں کی ہوا تک نہ لگنے دی تھی۔ چند مخصوص شہروں میں بادشاہی قلعے اور مساجد بنا کر یا پھر چند خوبصورت عمارتیں جن میں دلی کا قطب مینار ،آگرہ کا تاج محل شامل تھا بنایا تھا۔ جبکہ اصلاحی اوررفاعی کاموں کی جھلک تاریخ کے صفحے الٹنے سے ہمیں کہیں نظر نہیں آتی۔ 1857ء کی جنگ آزادی جسے انگریز غدر کے نام سے پکارتے ہیں کے بعد برصغیر ہند پر انگریز کا مکمل قبضہ ہو چکا تھا جس کے بعد وقتاً فوقتاً برصغیر کے عوام آزادی کی تحریکیں چلا کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہے۔ مگر بہ مثال ہاتھ کا باندھا دانتوں سے کھولنا پڑتا ہے۔ یہ آزادی کی جنگ بھی قریباً سو سال چلی اور پھر 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی صورت میں ایک پہلی جماعت کا قیام عمل میں آیا چونکہ خطے کے مسلمانوں نے دیکھ لیا تھا کہ تاجدار برطانیہ کی نوازشیں ہندوئوں اور دوسری اقوام کے لیے مختلف تھیں جبکہ مسلمان جس سے اقتدار چھینا گیا تھا اس کو ہمیشہ غلامی کی زنجیروں میں جھکڑا گیا کہ یہ کبھی بھی اٹھ کھڑا ہو گا۔ انگریز حکمرانوں نے ہندوئوں ، مسلمانوں اور سکھوں کو جو خطے کی تین بڑی قومیں تھیں آپس میں لڑا کر ہمیشہ اقتدار اپنی گرفت مضبوط کی مگر جب مسلمانان ہند نے خواب خرگوش سے انگڑائی لی تو ایک مذہب قومیت کے نام پر دو قومی نظریہ کی بنیاد رکھی اور پھر حضرت علامہ محمد اقبالؒ کے خواب کو 1947ء میں عملی جامہ پہنا دینے پر تاج برطانیہ کو مجبور کیا۔ انگریز اپنی اس ہزیمت کو کب بھول سکتا تھا قیام پاکستان کے قبل آخری وائسرائے لارڈ مونٹ بیٹن نے چالاک ہندو کے ساتھ مل کر جو فیصلے کیے جن کی وجہ سے برصغیر تقسیم ہند کے بعد بھی جغرافیائی لحاظ سے ہندوئوں کو زیادہ فائدہ دیا گیا یہاں جہاں دوسرے عوامل اور مسلمانوں کی سوئی ہوئی سوچ نے کردار ادا کیا وہی لارڈ مونٹ بیٹن کی اہلیہ کے پنڈت جواہر لعل نہرو سے تعلقات نے اس تقسیم پر اپنے گہرے اثرات چھوڑے۔ مقصد اس کا یہ تھا کہ خطے کے مسلمانوں کو آزادی کی کبھی نہ ختم ہونے والی سزا دی جائے ۔اسی لیے جونا گڑھ ،حیدرآباد دکن اور کشمیر کے معاملات کو مسئلہ بنا کر جغرافیائی تقسیم کی خلاف ورزی کی گئی جس کا نتیجہ اس خطے کے مسلمان آزادی کے بعد بھی بھگت رہے ہیں۔تقسیم کے وقت پاکستان کے پاس بَری بحری ، فضائی افواج صرف کاغذوں پر موجود تھیں جبکہ سارا سرکاری خزانہ اور انفراسٹکچر ہندوستان کے حصے میں آیا۔ بڑی بڑی صنعتیں جو اس وقت بمبئی، دلی اور بھارت میں موجود تھیں ہندوئوں کے حصے میں آئیں اور اسی تقسیم میں دھاندلی کی وجہ سے ہندوئوں نے پہلا گورنر جنرل آزادی کے بعد انگریز کو قبول کیا جبکہ مسلمانوں نے حضرت قائداعظم کی قیادت پر اعتماد کیا جو اس بے سروپا بے دست پاکستان کو لے کر آگے بڑھے ۔ صرف عزم اور حوصلے کی بنیاد پر پاکستان کے عوام ایک مقصد کی خاطر غیر منظم مگر ہمت سے لڑتے ہوئے سیاسی نہ پختگی اور لیڈرشپ کی کمی کی وجہ سے ایسے پٹری سے اترے کہ پھر سنبھلنا مشکل ہو گیا۔ وڈیروں،جاگیرداروں، سرداروں اور نوابوں کی موجودگی میں کسی ایک آئین پر متفق نہ ہوئے اور بڑی دیر تک 1933ء کا آئین چلتا رہا اس دوران سکندر مرزا اور ایوب خان کے دو مارشل لائوں نے رہی سہی کسر نکال دی اور حضرت قائداعظم ؒ کی بے سروسامانی میں رحلت، قائدملت لیاقت علی خان کی شہادت ،خواجہ ناظم الدین ، سہروردی اور غلام محمد کی آپس کی لڑائیاں خطے کے عوام کو جمہوریت سے دور لے گئیں۔ اس دوران امریکہ بین الاقوامی افق پر جگمگانے لگا تھا۔ (جاری ہے)

ای پیپر دی نیشن