انگریز اس خطے کے مزاج کو سمجھنے والا پہلا حکمران تھا جس کو اس برصغیر کے لوگوں کی سوچ اور ذہنیت پر مکمل اپروچ تھی یہی وجہ ہے کہ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے اس نے مقامی لوگوں کے ذہنوں میں غداری کی ایک نئی روایت کو جنم دیا اور پھر اپنے حواریوں کو نوابی، جاگیرداری حتیٰ کہ نچلی سطح پر ذیلداری اور نمبرداری تک بھی بخشنی جاری رکھیں اور خطے کے عوام کو ہمنوا بنانے اور اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے انگریز سرکار نے ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا ،سڑکیں ،پل، ریلوے، ڈاک خانہ، مواصلات کا مکمل نظام آج بھی انگریز طرز حکومت کی پہچان ہے۔ سکول بنائے گئے، حکومت کی اصل عملداری کے لیے تھانہ سسٹم قائم کیا گیا جبکہ اس سے پہلے مغل حکمران اور جنگجو سلاطین نے خطے کے عوام کو ان سہولتوں کی ہوا تک نہ لگنے دی تھی۔ چند مخصوص شہروں میں بادشاہی قلعے اور مساجد بنا کر یا پھر چند خوبصورت عمارتیں جن میں دلی کا قطب مینار ،آگرہ کا تاج محل شامل تھا بنایا تھا۔ جبکہ اصلاحی اوررفاعی کاموں کی جھلک تاریخ کے صفحے الٹنے سے ہمیں کہیں نظر نہیں آتی۔ 1857ء کی جنگ آزادی جسے انگریز غدر کے نام سے پکارتے ہیں کے بعد برصغیر ہند پر انگریز کا مکمل قبضہ ہو چکا تھا جس کے بعد وقتاً فوقتاً برصغیر کے عوام آزادی کی تحریکیں چلا کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہے۔ مگر بہ مثال ہاتھ کا باندھا دانتوں سے کھولنا پڑتا ہے۔ یہ آزادی کی جنگ بھی قریباً سو سال چلی اور پھر 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی صورت میں ایک پہلی جماعت کا قیام عمل میں آیا چونکہ خطے کے مسلمانوں نے دیکھ لیا تھا کہ تاجدار برطانیہ کی نوازشیں ہندوئوں اور دوسری اقوام کے لیے مختلف تھیں جبکہ مسلمان جس سے اقتدار چھینا گیا تھا اس کو ہمیشہ غلامی کی زنجیروں میں جھکڑا گیا کہ یہ کبھی بھی اٹھ کھڑا ہو گا۔ انگریز حکمرانوں نے ہندوئوں ، مسلمانوں اور سکھوں کو جو خطے کی تین بڑی قومیں تھیں آپس میں لڑا کر ہمیشہ اقتدار اپنی گرفت مضبوط کی مگر جب مسلمانان ہند نے خواب خرگوش سے انگڑائی لی تو ایک مذہب قومیت کے نام پر دو قومی نظریہ کی بنیاد رکھی اور پھر حضرت علامہ محمد اقبالؒ کے خواب کو 1947ء میں عملی جامہ پہنا دینے پر تاج برطانیہ کو مجبور کیا۔ انگریز اپنی اس ہزیمت کو کب بھول سکتا تھا قیام پاکستان کے قبل آخری وائسرائے لارڈ مونٹ بیٹن نے چالاک ہندو کے ساتھ مل کر جو فیصلے کیے جن کی وجہ سے برصغیر تقسیم ہند کے بعد بھی جغرافیائی لحاظ سے ہندوئوں کو زیادہ فائدہ دیا گیا یہاں جہاں دوسرے عوامل اور مسلمانوں کی سوئی ہوئی سوچ نے کردار ادا کیا وہی لارڈ مونٹ بیٹن کی اہلیہ کے پنڈت جواہر لعل نہرو سے تعلقات نے اس تقسیم پر اپنے گہرے اثرات چھوڑے۔ مقصد اس کا یہ تھا کہ خطے کے مسلمانوں کو آزادی کی کبھی نہ ختم ہونے والی سزا دی جائے ۔اسی لیے جونا گڑھ ،حیدرآباد دکن اور کشمیر کے معاملات کو مسئلہ بنا کر جغرافیائی تقسیم کی خلاف ورزی کی گئی جس کا نتیجہ اس خطے کے مسلمان آزادی کے بعد بھی بھگت رہے ہیں۔تقسیم کے وقت پاکستان کے پاس بَری بحری ، فضائی افواج صرف کاغذوں پر موجود تھیں جبکہ سارا سرکاری خزانہ اور انفراسٹکچر ہندوستان کے حصے میں آیا۔ بڑی بڑی صنعتیں جو اس وقت بمبئی، دلی اور بھارت میں موجود تھیں ہندوئوں کے حصے میں آئیں اور اسی تقسیم میں دھاندلی کی وجہ سے ہندوئوں نے پہلا گورنر جنرل آزادی کے بعد انگریز کو قبول کیا جبکہ مسلمانوں نے حضرت قائداعظم کی قیادت پر اعتماد کیا جو اس بے سروپا بے دست پاکستان کو لے کر آگے بڑھے ۔ صرف عزم اور حوصلے کی بنیاد پر پاکستان کے عوام ایک مقصد کی خاطر غیر منظم مگر ہمت سے لڑتے ہوئے سیاسی نہ پختگی اور لیڈرشپ کی کمی کی وجہ سے ایسے پٹری سے اترے کہ پھر سنبھلنا مشکل ہو گیا۔ وڈیروں،جاگیرداروں، سرداروں اور نوابوں کی موجودگی میں کسی ایک آئین پر متفق نہ ہوئے اور بڑی دیر تک 1933ء کا آئین چلتا رہا اس دوران سکندر مرزا اور ایوب خان کے دو مارشل لائوں نے رہی سہی کسر نکال دی اور حضرت قائداعظم ؒ کی بے سروسامانی میں رحلت، قائدملت لیاقت علی خان کی شہادت ،خواجہ ناظم الدین ، سہروردی اور غلام محمد کی آپس کی لڑائیاں خطے کے عوام کو جمہوریت سے دور لے گئیں۔ اس دوران امریکہ بین الاقوامی افق پر جگمگانے لگا تھا۔ (جاری ہے)
پاکستان اور خطے کی سیاست__ بین الاقوامی سازشوں کی لپیٹ میں
Oct 07, 2010
انگریز اس خطے کے مزاج کو سمجھنے والا پہلا حکمران تھا جس کو اس برصغیر کے لوگوں کی سوچ اور ذہنیت پر مکمل اپروچ تھی یہی وجہ ہے کہ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے اس نے مقامی لوگوں کے ذہنوں میں غداری کی ایک نئی روایت کو جنم دیا اور پھر اپنے حواریوں کو نوابی، جاگیرداری حتیٰ کہ نچلی سطح پر ذیلداری اور نمبرداری تک بھی بخشنی جاری رکھیں اور خطے کے عوام کو ہمنوا بنانے اور اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے انگریز سرکار نے ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا ،سڑکیں ،پل، ریلوے، ڈاک خانہ، مواصلات کا مکمل نظام آج بھی انگریز طرز حکومت کی پہچان ہے۔ سکول بنائے گئے، حکومت کی اصل عملداری کے لیے تھانہ سسٹم قائم کیا گیا جبکہ اس سے پہلے مغل حکمران اور جنگجو سلاطین نے خطے کے عوام کو ان سہولتوں کی ہوا تک نہ لگنے دی تھی۔ چند مخصوص شہروں میں بادشاہی قلعے اور مساجد بنا کر یا پھر چند خوبصورت عمارتیں جن میں دلی کا قطب مینار ،آگرہ کا تاج محل شامل تھا بنایا تھا۔ جبکہ اصلاحی اوررفاعی کاموں کی جھلک تاریخ کے صفحے الٹنے سے ہمیں کہیں نظر نہیں آتی۔ 1857ء کی جنگ آزادی جسے انگریز غدر کے نام سے پکارتے ہیں کے بعد برصغیر ہند پر انگریز کا مکمل قبضہ ہو چکا تھا جس کے بعد وقتاً فوقتاً برصغیر کے عوام آزادی کی تحریکیں چلا کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہے۔ مگر بہ مثال ہاتھ کا باندھا دانتوں سے کھولنا پڑتا ہے۔ یہ آزادی کی جنگ بھی قریباً سو سال چلی اور پھر 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی صورت میں ایک پہلی جماعت کا قیام عمل میں آیا چونکہ خطے کے مسلمانوں نے دیکھ لیا تھا کہ تاجدار برطانیہ کی نوازشیں ہندوئوں اور دوسری اقوام کے لیے مختلف تھیں جبکہ مسلمان جس سے اقتدار چھینا گیا تھا اس کو ہمیشہ غلامی کی زنجیروں میں جھکڑا گیا کہ یہ کبھی بھی اٹھ کھڑا ہو گا۔ انگریز حکمرانوں نے ہندوئوں ، مسلمانوں اور سکھوں کو جو خطے کی تین بڑی قومیں تھیں آپس میں لڑا کر ہمیشہ اقتدار اپنی گرفت مضبوط کی مگر جب مسلمانان ہند نے خواب خرگوش سے انگڑائی لی تو ایک مذہب قومیت کے نام پر دو قومی نظریہ کی بنیاد رکھی اور پھر حضرت علامہ محمد اقبالؒ کے خواب کو 1947ء میں عملی جامہ پہنا دینے پر تاج برطانیہ کو مجبور کیا۔ انگریز اپنی اس ہزیمت کو کب بھول سکتا تھا قیام پاکستان کے قبل آخری وائسرائے لارڈ مونٹ بیٹن نے چالاک ہندو کے ساتھ مل کر جو فیصلے کیے جن کی وجہ سے برصغیر تقسیم ہند کے بعد بھی جغرافیائی لحاظ سے ہندوئوں کو زیادہ فائدہ دیا گیا یہاں جہاں دوسرے عوامل اور مسلمانوں کی سوئی ہوئی سوچ نے کردار ادا کیا وہی لارڈ مونٹ بیٹن کی اہلیہ کے پنڈت جواہر لعل نہرو سے تعلقات نے اس تقسیم پر اپنے گہرے اثرات چھوڑے۔ مقصد اس کا یہ تھا کہ خطے کے مسلمانوں کو آزادی کی کبھی نہ ختم ہونے والی سزا دی جائے ۔اسی لیے جونا گڑھ ،حیدرآباد دکن اور کشمیر کے معاملات کو مسئلہ بنا کر جغرافیائی تقسیم کی خلاف ورزی کی گئی جس کا نتیجہ اس خطے کے مسلمان آزادی کے بعد بھی بھگت رہے ہیں۔تقسیم کے وقت پاکستان کے پاس بَری بحری ، فضائی افواج صرف کاغذوں پر موجود تھیں جبکہ سارا سرکاری خزانہ اور انفراسٹکچر ہندوستان کے حصے میں آیا۔ بڑی بڑی صنعتیں جو اس وقت بمبئی، دلی اور بھارت میں موجود تھیں ہندوئوں کے حصے میں آئیں اور اسی تقسیم میں دھاندلی کی وجہ سے ہندوئوں نے پہلا گورنر جنرل آزادی کے بعد انگریز کو قبول کیا جبکہ مسلمانوں نے حضرت قائداعظم کی قیادت پر اعتماد کیا جو اس بے سروپا بے دست پاکستان کو لے کر آگے بڑھے ۔ صرف عزم اور حوصلے کی بنیاد پر پاکستان کے عوام ایک مقصد کی خاطر غیر منظم مگر ہمت سے لڑتے ہوئے سیاسی نہ پختگی اور لیڈرشپ کی کمی کی وجہ سے ایسے پٹری سے اترے کہ پھر سنبھلنا مشکل ہو گیا۔ وڈیروں،جاگیرداروں، سرداروں اور نوابوں کی موجودگی میں کسی ایک آئین پر متفق نہ ہوئے اور بڑی دیر تک 1933ء کا آئین چلتا رہا اس دوران سکندر مرزا اور ایوب خان کے دو مارشل لائوں نے رہی سہی کسر نکال دی اور حضرت قائداعظم ؒ کی بے سروسامانی میں رحلت، قائدملت لیاقت علی خان کی شہادت ،خواجہ ناظم الدین ، سہروردی اور غلام محمد کی آپس کی لڑائیاں خطے کے عوام کو جمہوریت سے دور لے گئیں۔ اس دوران امریکہ بین الاقوامی افق پر جگمگانے لگا تھا۔ (جاری ہے)