خالق کائنات کے رنگ دلنشین چہروں ہی میں نہیں بلکہ قدرشناس دلوں اور تخلیق کار ذہنوں میں بھی نظر آتے ہیں۔ درسگاہوں میں علم کی ڈگریاں ملتی رہتی ہیں لیکن کچھ عہد ساز شخصیتیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ جن کے لئے علم سے آگے یعنی معرفت کی ڈگریاں وجود پاتی ہیں یعنی بصیرت نہیں، بصارت کی ڈگریاں جلا کرتی ہیں جو بخت والوں کے حصے میں آتی ہیں۔ ڈاکٹر مجید نظامی کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہے۔ چند روز قبل پنجاب یونیورسٹی سنٹر فار انڈر گریجویٹ ہال میں ایک پروقار تقریب میں جناب مجید نظامی کو پی ایچ ڈی کی آنریری ڈگری عطا کی گئی۔ جب آبروئے صحافت ڈاکٹر صاحب ہال میں داخل ہوئے تو اس موقع پر آپ کے لاتعداد دوستوں، ہم عصروں کے علاوہ جہانگیر بدر، میاں عمران مسعود، بیگم بشریٰ رحمان، مجیب الرحمان شامی، سلیم بخاری، سعید آسی، قیوم نظامی، خواجہ فرخ سعید، نعیم حسین چٹھہ، جسٹس (ر) فرخ آفتاب، ڈاکٹر رفیق احمد، ڈاکٹر مجاہد منصوری، مظفر مرزا، شعیب مرزا، پروفیسر نعیم قاسم، ڈاکٹر اجمل نیازی، ڈاکٹر احسن اختر ناز، بیگم مہناز رفیع، ڈاکٹر ایم اے صوفی، ادیب جاودانی، شعیب بن عزیز، عطاءالرحمان، صوفیہ بیدار، فوزیہ تبسم کے علاوہ کثیر تعداد میں پروفیسرز و صحافی موجود تھے۔ محترمہ رمیزہ نظامی، ڈاکٹر مجاہد کامران، پروفیسر اورنگ زیب عالمگیر اور سید زعیم حسین قادری اس تقریب میں نمایاں نظر آ رہے تھے۔ ڈاکٹر مجید نظامی کی اپنے خطاب میں بذلہ سنجی سے تقریب کا ماحول پرکیف رہا۔ آپ نے یونیورسٹی حکام کا شکریہ ادا کیا کہ جس نے ”مجھے مجید نظامی سے ”ڈاکٹر مجید نظامی“ بنا دیا۔ جناب ڈاکٹر مجید نظامی صاحب! یہ ایک حقیقت ہے کہ ارسطو، سقراط، ہراکلائٹس اور افلاطون کے پاس کسی مستند ادارے کی مصدقہ ڈگری نہ تھی تاہم ان کی معرفت و فضیلت کا اقرار پورا عالم کرتا ہے۔ ہاں یہ بھی درست ہے کہ ”علامہ کہلانا“ ”سر کا خطاب ملنا“ یا ڈاکٹر“ بن جانا قابل فخر بات ہے۔ اس نکتے پر میں یہی کہوں گی کہ کاش ارسطو، سقراط، ہراکلائٹس و افلاطون کو بھی قدرشناس مجاہد کامران مل گیا ہوتا۔ بہرحال اے کسی شاہ وقت کی مجلس شوریٰ کے رکن بننے کی پیشکش کو ٹھکرانے والے‘ گورنر و صدر کے ارفع درجوں کو قبول نہ کرنے والے ڈاکٹر مجید نظامی تیرا شکریہ کہ تو نے مجاہد کامران کی تعظیمی سند کو تعظیم بخشی اور قبول کیا۔ تو نے آنریری ڈاکٹریٹ کا معیار و وقار بھی اسی طرح بنا دیا جس طرح صحافت کے اعلیٰ معیار کے اصولوں کو رواج کیا۔ جو مجید نظامی ایمانداری، بیباکی، سچائی، حب الوطنی و اصولی صحافت کی ترویج کے لئے اتنی .... اس قدر .... بے تحاشا مساعی رکھتا ہو کہ اس سب کے سبب اسے زندگی کی چوتھی ایکسٹنشن پر کام کرنا پڑ رہا ہو تو ایسے مجید نظامی کی زندگی کی ہر ایکسٹنشن رب کریم کا انعام محسوس ہوتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس انعام کو دوام بخشے۔ ڈاکٹر مجید نظامی کو زمانہ طالب علمی ہی سے سیاست میں دلچسپی رہی۔ تحریک پاکستان میں آپ کے سرگرم کردار کے سبب لیاقت علی خان نے آپ کو مجاہد تحریک پاکستان کا لقب دیا۔ دور ایوبی میں مارشل لاءحکومت کے خلاف آپ کی مساعی تاریخ ساز ہے۔ ان دنوں جب صحافت کے لئے حکومت وقت سے ”ویر“ لینا آسان نہ تھا ڈاکٹر مجید نظامی نے ایوبی کارستانیوں پر زبردست تنقید کا سلسلہ جاری رکھا۔ کھل کر محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔ آپ کو مادر ملت کہہ کر مخاطب کیا جو بعدازاں زباں زد عام ہو گیا۔ مادر ملت کے خلاف ایوب حکومت کی دھاندلیوں کو بے نقاب کرنا گویا یہ کام صرف نوائے وقت ہی کر سکتا تھا کہ جس کی سرپرستی ڈاکٹر مجید نظامی فرما رہے تھے۔ پھر ایوب کے بعد یحیٰی .... ضیاءالحق اور پھر مشرف آمریتوں کے خلاف بھی نوائے وقت کو ٹھوس آواز سمجھا جاتا ہے۔ ملک میں جمہوری حکومت کے فروغ اور جمہوری روایات کے پرچار میں ڈاکٹر مجید نظامی نے ہر جرنیلی و سول حکمران کو صراط مستقیم دکھائی۔ یہی نہیں بلکہ یہ آپ ہی کی ذات گرامی ہے کہ جس کی بدولت مسئلہ کشمیر کو سرد خانے میں ڈالنے کی بارہا کوشش کرنے والے ناکام ہوتے گئے۔ بھارتی آبی جارحیت آشکار ہوتی چلی گئی۔ نیٹو سپلائی و ڈرون حملوں کی بھرپور مزاحمت کی گئی۔ امریکی جی حضوریوں کو کھلا کھلم ہدف تنقید بنایا گیا اور پین اسلام ازم یعنی اتحاد بین المسلمین کی ہر دور کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا۔ عالمی دہشت گردی کے مسائل ہوں یا کروسڈ وار کے تنازعات ڈاکٹر مجید نظامی نے بیباکی و دلیری کے ساتھ عالم اسلام کے نقطہ نظر کی ترویج کی طرف پیش قدمی کی۔
ڈاکٹر مجید نظامی نے اپنے بڑے بھائی کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے خاردار راستوں سے نبھا کیا۔ وہ نہ جھکا اور نہ بکا۔ اس وقت جناب ڈاکٹر صاحب کی ناقابل تسخیر شخصیت اپنے ہم عصروں کے لئے چیلنج بن چکی ہے تو اپنے جانشینوں کے لئے مشکلات بھی پیدا کر چکی ہے۔ بلاشبہ محترمہ رمیزہ نظامی لاتعداد خوبیوں کی مالکہ ہیں۔ عزم ہمت اور معاملہ فہمی کی خصوصیات کی حامل ہیں مگر انہیں اپنے پیارے والد جناب ڈاکٹر مجید نظامی کا جانشین بننے کے لئے بہت دور جانا پڑے گا۔ اپنی ہستی اور اپنی ذات سے بھی دور جانا پڑے گا یعنی بہت دور .... اتنی دور کہ جہاں اعزازات، عزت مآب القاب و خطاب اور ڈگریاں آپ کی خوبیوں کے پلڑے میں ہلکی ہو جاتی ہیں۔ آپ کی ذات کے مقابل معمولی لگنے لگتی ہیں۔ یا رب کریم محسن صحافت ڈاکٹر مجید نظامی کو صحت و تندرستی کی حیات خضر عطا فرما۔ آمین ثم آمین۔
اور مجھے مجید نظامی سے ”ڈاکٹر مجید نظامی“ بنا دیا
Oct 07, 2012