مکرمی! میں بچپن سے نوائے وقت کی دلیراز پالیسی کی بدولت اس اخبار کا معمولی سا قاری ہوں اور ان کے انداز صحافت سے آگاہی ہوتی رہی ہے جو نہ صرف منفرد بلکہ ہمیشہ سے ایک جیسی چند بنیادی اصولوں پر مبنی ہے جس میں سے ایک کلمہ حق جابر سلطان کے آگے کہنا ہے۔ بچپن سے جوانی اور اب اس کے بعد کے سفر میں، میں نے مجید نظامی کو اپنے لیے Mentorکا درجہ دے رکھا ہے اور اس کا علم مجید نظامی صاحب کو نہیں ہے مگر ان کی شخصیت میں بزرگی کے علاوہ ایک عجیب قسم کی طلسماتی کشش ہے۔ اپنی خرابی طبیعت کی بنا میں ان کو پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری ملنے کی پُروقار تقریب میں شرکت تو نہ کر سکا مگر میں نے فون پر وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کو مبارک باد بھی دی کہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ یہ مبارک کام ان کے ہاتھوں سرانجام پایا۔ مجید نظامی پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا کام بڑی دلیری سے کر رہے ہیں اور ہماری ناکام حکومتیں ایک طرف تو کشمیر کو بھلا چکی ہیں جس کے لئے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم جیسے لیڈر ہزار سال لڑنے کا نعرہ لگا چکے ہیں اور دوسری طرف امن کی آشا کے بقول بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کی باتیں ہو رہی ہیں حالانکہ واضح طور پر علم ہے کہ بھارت کبھی بھی نہ چاہے گا کہ پاکستان اقتصادی طور پر ترقی کرے۔ ایسی صورتحال میں مجید نظامی صاحب کا ملک سے محبت کا اظہار اور کشمیر کیلئے یاد دلانے کا رویہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ایوان کارکنان پاکستان ان دنوں کی یاد دلاتا ہے جب ایوب خان کے دور تک ہر ایک کو ملک سے محبت تھی ہر کوئی کشمیر کو حاصل کرنا لازمی سمجھتا تھا اور ہر کوئی ملک کو ترقی کی راہ پر دیکھنے کا خواہش مند تھا۔ آج صورتحال مختلف ہوتی جا رہی ہے۔ ہر طبقہ فکر کے لوگ ملک کے ساتھ ڈراﺅنا اور خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔ کوئی بلوچستان کے عوام کو مشرقی پاکستان کے عوام جیسا سوچنے پر مجبور کر رہا ہے تو کوئی کراچی کی معصوم عوام کی گردنوں کو کاٹ کر خون بہا رہا ہے۔ کوئی مصالحت کی سیاست کے نام پر اقتدار کے مزے اڑا رہا ہے تو کوئی وزارت عظمیٰ کے دور سے اپنے بیٹوں اور فیملی ممبران کو فائدے پہنچانے اور اب عدالتوں سے بچانے میں مصروف ہے تو کوئی ڈاکٹروں کی ہڑتال کروا کر معصوم مریضوں کو تکلیف پہنچانے میں، کوئی پٹرول بم گرا رہا ہے تو کوئی سوئی گیس سے کھلواڑ کر رہا ہے۔ ڈاکہ زنی، اغواءبرائے تاوان اب عام ہو چکا ہے۔ ایسے میں پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد ملک کے حالات سے مایوس اور پریشان نظر آتی ہے مگر امید کی کرن اگر پیدا ہوتی ہے تو مجید نظامی کی شخصیت اور ان کے کردار کو دیکھ کر ہوتی ہے۔ خدا نے کیا انسان بنایا ہے کہ جس میں جرات بھی ہے کہ کوئی صدر پاکستان بلائے تو وہ نہ جائے۔ وطن سے محبت بھی ہے کہ ہر وقت پاکتان کا نام لیتے رہنا اور قوم کو قائد اعظم اور علامہ اقبال کے فلسفے یاد کرواتے رہنا، اخبار کو دیکھیں تو جرات اور بہادری سے دی گئی خبریں، ٹی وی چینل وقت نیوز کو دیکھیں تو دوسروں سے قدرے مختلف مگر پُراثر پروگرام ذاتی کردار کو دیکھیں تو بہادری اور برد باری سے بھرپور وہ شخصیت کہ جس کی صحبت میں بیٹھ کر انسان بہت کچھ سیکھ سکے۔ حق بات کہنے والا اور سب سے بڑھ کر امن کی آشا جیسے گھناﺅنے خوابوں کا مخالف اور وطن کی محبت سے عقیدت کی حد تک آشنا مجید نظامی اس آسمان پاکستان کا وہ درخشندہ ستارہ ہے جسے پی ایچ ڈی سے بھی بڑی ڈگری ہو تو ضرورت نہ تھی مگر ڈاکٹر مجاہد کامران نے جو محسوس کیا اس کو عملی جامہ پہنایا۔ میں مجید نظامی صاحب کو تو مبارک باد پیش کروں گا ہی مگر ڈاکٹر مجاہد کامران کو خصوصی مبارک باد کہ انہوں نے صحافت کی دنیا کا پہلا ”ڈاکٹر“ بھی پیدا کر دیا۔ یقینا پی ایچ ڈی علم و فضل کی دنیا کا وہ اعزاز ہے جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے مبارک ڈاکٹر مجید نظامی صاحب۔