اکثر دوست احباب یہ پوچھتے ہیں کہ اگر امریکن افغان طالبان سے بات کر رہے ہیں اور انہوں نے قطر میں ان کادفتر بھی کھلوا دیا ہے تو ہماری حکومت ایسا کیوں نہیں کر سکتی؟ یہ امر اور بھی حیران کن ہے کہ عمران خان جیسے معتبر لیڈر کی طرف سے بھی یہ سوال اٹھایا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ سیاسی زعما اور ٹی وی اینکر صاحبان بھی اس سوال کا صحیح خاطر خواہ جواب نہیں دے پاتے۔ جو صاحب یہ سوال پوچھتے ہیں وہ افغانستان اور پاکستان میں موجود صورتحال میں زمین آسمان کے فرق سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ امریکنوں نے افغانستان پر بارہ سال سے قبضہ جما رکھا ہے اور افغان عوام اور طالبان ان کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ امریکی جنگ ہار چکے ہیں اور ان کے ہم وطنوں کی طرف سے ان پر شدید دباؤ ہے کہ وہ افغانستان سے واپسی اختیار کریں۔ وہ افغانستان سے پرامن طریقے سے انخلاء چاہتے ہیں۔ ان کے پاس اربوں ڈالروں کا سامان جنگ ہے جو ساتھ لے جانا چاہتے ہیں ان کو امن کی اس لئے ضرورت ہے کہ جب کوئی فوج کسی ملک سے پسپائی اختیار کرتی ہے تو وہ بے دست و پا ہوتی ہے۔ اس کے ٹینک اور توپیں ٹریلروں پر سوار اور لہٰذا ناکارہ ہوتے ہیں۔ اپنے بھاری اسلحے کے بغیر اس کی فوجی طاقت صفر کے برابر ہوتی ہے اور اس کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا جا سکتا ہے‘ بلکہ اس کا قلع قمع کیا جا سکتا ہے۔ اسی لئے وہ طالبان کے ساتھ معاہدہ کیلئے ہر کوشش کر گزریں گے کیونکہ اب ان کے پاس صرف چند مہینے باقی ہیں جن کے بعد انخلاء شروع ہونا ہے۔ گویا مذاکرات کی پیشکش کر کے یا دفتر کھول کر امریکنوں نے افغان طالبان پر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ یہ ان کی اپنی اشد اور فوری ضرورت ہے۔
روسیوں کو 1980ء کی دہائی کے اوآخر میں ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا‘ جب ان کوجنیوا معاہدہ کرنا پڑا۔ اس کی رو سے روسیوں نے اپنے آپ کو پابند کیا کہ وہ اپنا ایک بھی فوجی پیچھے چھوڑ کر نہیں جائینگے اور مجاہدین اس پر رضامند ہوئے کہ اس صورت میں وہ روسیوں کو پرامن انخلاء کا راستہ دیں گے ہو سکتا ہے اس مرتبہ بھی کچھ ایسا ہی ہو۔
ادھر پاکستان میں خدا کے فضل سے حالات بالکل مختلف ہیں۔ امریکی اور نیٹو فوج کی پوزیشن کے برعکس ہماری فوج کوئی غیر ملکی قابض فوج نہیں ہے۔ وہ اس ملک و قوم کی فوج ہے اور اس نے ہزاروں جانوں کی قربانی وطن عزیز پر دی ہے۔ یہ ملک اس فوج کا وطن اور گھر ہے اور یہ کہیں نہیں جا رہی ہے۔ ہماری حکومت اپنی تمامتر کمزوریوں کے باوجود ایک مکمل طور پر جمہوری حکومت ہے جس کو عوام نے اپنی مرضی اور اپنے ووٹ سے منتخب کیا ہے اور یہاں ایک فعال سپریم کورٹ کے علاوہ تمام ادارے قائم ہیں۔ وطن عزیز کے وسیع و عریض علاقوں پر مسلح پاکستانیوں اور بعض غیر ملکیوں نے بندوق کے زور پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ انہوں نے چالیس ہزار بیگناہ سویلین اور فوجیوں کو شہید کیا ہوا ہے۔ سکول‘ مارکٹیں اور عبادتگاہیں تباہ کی ہوئی ہیں۔ جس کیلئے انہوں نے خودکش بمباروں‘ ریموٹ کنٹرول بموں‘ بارودی سرنگوں اور اسلحہ کا آزادانہ استعمال کیا ہے اور پھر ہمیشہ ان ہزاروں کے قتل کی ذمہ داری بھی قبول کی ہوئی ہے۔ یہ کھلم کھلی بغاوت ہے۔ ایک دو ملٹری آپریشنز کے علاوہ وفاقی حکومت نے اس کے خلاف کچھ بھی نہیں کیا۔ حکومت اور اس کے ماتحت افواج پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے علاقوں کو ان باغیوں سے واپس لے۔
لیکن اس سب کے باوجود حکومت پاکستان نے خود مذاکرات کی پیشکش کی۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ حکومت کوئی پیشگی شرائط عائد نہیں کریگی۔ قارئین! اس پر دوسرے فریق کو کیا کرنا چاہئے تھا؟ راقم الحروف کی ناقص رائے میں مناسب یہ تھا کہ وہ بھی کوئی پیشگی شرائط عائد نہ کرتے اور دوسرے یہ کہ وقتی طور پر ہی سہی‘ خونریزی بند کر دیتے تاکہ مذاکرات کیلئے پرامن ماحول میسر آسکے۔ اس کے برعکس انہوں نے دو عدد شرائط عائد کر دیں کہ حکومت ان کے قیدی رہا کرے اور فوج قبائلی علاقے خالی کر دے۔ یعنی موت کی سزا پانے والوں کو رہا کرے اور قبائلی علاقے ان کے حوالے کر کے نکل جائے۔ یہی نہیں بلکہ ایک میجر جنرل سمیت تین فوجی اہلکاروں کو شہید کر دیا اور اسی روز تین مزید قاتلانہ حملے بھی کر ڈالے۔ انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ فوج کھلی بغاوت کی موجودگی میں وطن عزیز کے علاقے باغیوں کے حوالے کیوں کرے؟ عوام اور لکھاریوں نے اکثر و بیشتر ان حالات میں مذاکرات کی افادیت پر شکوک و شبہات ظاہر کئے ہیں۔ اس دوران شدت پسند تقریباً روزانہ دھماکوں اور خونریزی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران انہوں نے وزیراعظم نواز شریف کا نام ان تین ضامنوں میں شامل کیا تھا جو کہ حکومت۔ طالبان مذاکرات کی کامیابی کی ضمانت دیں۔ اب وہی نواز شریف وزیراعظم ہیں اور شدت پسندوں نے 100 دن میں 100 سے زیادہ دھماکے کر دئیے ہیں…ع
تم ہی بتاؤ یہ انداز گفتگو کیا ہے
ان حالات میں راقم الحروف کو مذاکرات کے مسئلے پر پیش رفت کی بہت کم امید ہے۔ ادھر وزیراعظم کا یہ بیان بالکل مناسب اور بروقت ہے کہ مذاکرات کو آئین کے دائرے میں رکھنا ہو گا‘ کیونکہ وزیراعظم نے آئین کی پاسداری اور حفاظت کا عہد اٹھایا ہوا ہے۔ ایسا نظر آتا ہے کہ طالبان مزید مطالبات پیش کرتے رہیں گے جن کو آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے پورا کرنا حکومت کے بس میں نہیں ہو گا۔ لہٰذا وہ دن عنقریب آپہنچے گا جب حکومت کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ایسے لوگوں کے ساتھ کیسے معاملہ کرنا ہے جو اول تو وطن عزیز کے ہزاروں مربع کلو میٹرز پر بندوق کے زور پر اپنی حکومت بنائے بیٹھے ہیں اور جن کا کوئی ارادہ نہیں کہ وہ علاقے خالی کریں اور دوئم جنہوں نے روزانہ کی خونریزی کو اپنی عادت سی بنا لی ہے۔ صرف حکومت کو اتنی سی بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ…؎
یہ تو مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن ۔۔۔۔ خاک ہو جائینگے ہم تم کو خبر ہونے تک