نیویارک کی پاکستانی صحافت

Oct 07, 2015

جاوید صدیق

مجھے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے کئی اجلاس کور کرنے کا موقع ملا ہے آخری مرتبہ سابق صدر آصف علی زرداری جب جنرل اسمبلی سے 2011 میں خطاب کے لئے گئے تھے تو میں پاکستانی صحافیوں کے اس گروپ میں شامل تھا جنہوںنے جنرل اسمبلی کا یہ اجلاس کور کیا تھا اس اجلاس میں سابق صدر نے ایک نرم سی تقریر کی تھی جنرل اسمبلی کے اجلاس کی خبریں زیادہ مزے دار نہیں تھیں البتہ اجلاس سے باہر کی خبریں خاصی کراری تھیں مثلاً نیویارک میں پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے پارٹی کے چیئرمین کے اعزاز میں ایک عشائیہ دیا تھا عشائیہ میں نیویارک میں پیپلزپارٹی کے دو مخالف دھڑے آپس میں لڑ پڑے تھے اس لڑائی اور دھینگامشتی کی خبریں پاکستانی میڈیا میں نمایاں طور پر شائع اور نشر ہوئی تھیں اسی دورہ کے بعد زرداری صاحب نے نجی میڈیا کے نمائندوں کو اپنے بیرونی دوروں میں شامل نہ کرنے کی پالیسی بنالی۔ اس مرتبہ وزیراعظم نوازشریف نے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرنا تھا اس خطاب کی اہمیت اس لئے بڑھ گئی تھی کہ بھارت کے پاکستان مخالف رویہ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں بڑی شدت پیدا کر دی تھی۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے تیور بتا رہے تھے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کسی مفاہمت کی بجائے محاذ آرائی کو ترجیح دے رہے ہیں مودی حکومت میں پاکستان اور بھارت کے درمیان دو مرتبہ بات چیت پر اتفاق ہوا اور دونوں مرتبہ بات چیت نہ ہو سکی پہلے خارجہ سیکرٹریوں کے مذاکرات ‘ بھارت نے منسوخ کر دیئے تھے اور پھر روس کے شہر اوفا میں دونوں ملکوں کے سلامتی کے امور کے مشیروں میں بات چیت پر اتفاق ہوا لیکن اس بات چیت سے چند روز قبل بھارت نے کشمیری لیڈروں کو نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشن کے استقبالیہ میں دعوت پر جھگڑا کھڑا کر دیا جس سے سلامتی کے امور کے مشیروں کی بات چیت بھی منسوخ ہو گئی اس پس منظر میں وزیراعظم نوازشریف کے جنرل اسمبلی میں خطاب میں بڑی دلچسپی لی جا رہی تھی اس بات کا واضح عندیہ دیا جا رہا تھا کہ وزیراعظم جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا مؤقف کھل کر پیش کریں گے اقوام متحدہ میں کشمیر کا ذکر بھارت کو ہمیشہ سخت چبھتا ہے وزیراعظم نے کشمیر کا اس تقریر میں نہ صرف ذکر کیا بلکہ انہوں نے بھارت کو تجویز دی کہ وہ جنوبی ایشیاء میں قیام امن کے لئے کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لئے ایک 4 نکاتی پروگرام پر عمل کرے تو اس مسئلہ کا حل نکل سکتا ہے وزیراعظم نے کشمیر کے ساتھ ساتھ فلسطین کے حل طلب مسئلہ کو جلد حل کرنے اور فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کے خاتمے پر بھی زور دیا۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو وزیراعظم نے یاد دلایا کہ اقوام متحدہ کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لئے اپنی پون صدی پران قراردادوں پر عمل درآمد کرائے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم نے کشمیر کے مسئلہ کو حل کرانے میں جس انداز میں زور دیا اسے آزاد اور مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں نے داد دی بزرگ کشمیری راہنما سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق نے وزیراعظم کی تقریر کو کشمیریوں کی آواز قراردیا۔
نیویارک میں وزیراعظم کی آخری مصروفیت ان کی پریس کانفرنس تھی جواس ہوٹل میں منعقدہوئی جہاںوزیراعظم پاکستان اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی مقیم تھے اس پریس کانفرنس میں نیویارک میں صحافت کرنے والے پاکستانی سوالات کرنے کے لئے بڑے بے چین تھے انہوں نے سوالات بھی کئے لیکن ان سوالوں میں کوئی گہرائی نہیں تھی محسوس ہوتا تھا کہ وہ صرف اپنی موجودگی کا احساس دلانا چاہتے ہیں نیویارک میں مقیم پاکستانی صحافی سیکرٹری خارجہ اور اقوام متحدہ میں ہماری مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی کی روزانہ کی پریس بریفنگ میں بھی ایسے سوالات پوچھ پوچھ رہے جن کا موضوع سے کوئی تعلق نہیں تھا مثلاً ایک سوال نیویارک میں مقیم ایک صحافی نے یہ پوچھا کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم پراحتجاج کرتا ہے لیکن آزادکشمیر میں فوج جو کچھ کر رہی ہے اس پر کیوں خاموشی اختیار کی جاتی ہے اس سوال پر اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی حیرت زدہ چہرے سے سوال کرنے والے صحافی کو دیکھتی رہ گئیں مذکورہ صحافی نے یہ سوال بھارتی میڈیا میں شائع ہونیوالی رپورٹ کی بنیاد پر کیاتھا سیکرٹری خارجہ کی بریفنگ میں بھارتی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹوں کو بنیاد بنا کر سوال پوچھے جاتے رہے جس پر ڈاکٹر لودھی نے ایک نیویارک کے صحافی سے کہہ ڈالا کہ آپ بھارتی ایجنڈے کے مطابق نہ چلیں ان کے ہاتھ میں نہ کھیلیں اپنی معلومات کی بنیادپر سوال کریں۔کچھ سوالوں کا مقصد پاکستانی حکام کی توہین تھی سوالوں کا لب و لہجہ بھی بڑا عامیانہ تھا سوال پوچھنا تو صحافی کا حق ہے لیکن اسے صحافتی اخلاق کے دائرے میں رہنا چاہیئے نیویارک کے روز ویلٹ ہوٹل میں جہاں صحافیوں کے لئے پریس سنٹر بنایا گیا تھا اس بریفنگ کے دوران مقامی صحافی آپس میں بھی الجھتے رہے ایک دوسرے کو سیاسی پارٹیوں کا ایجنٹ قرار دیتے رہے ایک پریس بریفنگ میں تو اگلی نشستوں پر مسلم لیگ (ن) نیویارک کے کارکن آکر بیٹھ گئے تھے جنہیں ہمارے کولیگ عامر متین نے یہ کہہ کر اٹھنے پر مجبور کر دیا کہ یہ سیاسی پارٹی کا جگہ نہیں بلکہ یہ پریس کانفرنس ہے یہاں صرف صحافی ہی بیٹھ سکتے ہیں۔

مزیدخبریں