ہمارے ہاں بین الاقوامی امور کے ماہر بنے کچھ دانشوروں اور مبصروں نے دل کو بہلانے والی کہانیاں گھڑتے ہوئے اپنے رزق کا بندوبست کررکھا ہے۔ میرا ربّ تو پتھر میں بند ہوئے کیڑے کو بھی رزق فراہم کردیتا ہے۔ وہ دانش ور جن کا میں ذ کررہا ہوںویسے ہی پیدائشی اشرف المخلوقات ہیں۔ ان کی ذہانت کو سلام اور ان کے دھندے میں برکتوں کی دعائیں۔
قوم کو جھوٹی کہانیاں سناکر گمراہ کرتے رہنا مگر ایک سنگین اخلاقی جرم ہے۔ اس کی سزا مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کی کسی دفعہ میں ہرگز درج نہیں۔ آپ کا ضمیر ہی اس ضمن میں کوئی فیصلہ کرسکتا ہے۔
بین الاقوامی امور کے ماہر بنے جعل سازدانشوروں نے اپنے بھاشنوں اور تحریروں سے ہمارے بے تحاشہ لوگوں کو یہ طے کرنے پر مجبور کردیا ے کہ سفارت کاری بنیادی طورپر دلاوری کا تقاضہ کرتی ہے۔ اپنے دشمن یا طاقت ور ملکوں کے سربراہان کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر اگر پاکستان کے حکمران اور سفارت کار انہیں بس اتنا ہی یاد دلادیں کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اور ہم نے یہ قوت شب برا¿ت پر پٹاخے چلانے کے لئے حاصل نہیں کی تو ان کے چھکے چھوٹ جائیں گے۔ وہ کشمیر اور افغانستان جیسے حساس اور پیچیدہ معاملات پر پاکستانی نقطہ نظر کو خوف سے کپکپاتے ہوئے تسلیم کرلیں گے۔
پاکستان کی ایٹمی قوت کے ذکرکے ساتھ دشمن کے اوسان خطا کردینے کے ہنر کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے اکثر ایک کہانی دہرائی جاتی ہے۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جب بھارت نے 1986ءمیں Brasstacks نامی مشقوں کے ذریعے پاکستان کے خلاف جارحیت کی گیم لگائی تو ایک کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے ضیاءالحق بھارت چلے گئے۔ وہاں سے وطن لوٹنے سے قبل انہوں نے راجیو گاندھی کو بڑے ٹھنڈے اور سادہ لہجے میں بتادیا کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت بن چکا ہے۔ اگر اس پر جنگ مسلط کی گئی تو بھارت کے تمام بڑے شہروں کو ایٹمی ہتھیاروں سے تباہ کردیا جائے گا۔ ضیاءالحق سے یہ خبر سن کر راجیو گاندھی کے اوسان خطا ہوگئے۔ بھارتی فوجی مشقیں فوراََ ختم کردی گئیں۔
ضیاءالحق کی راجیوگاندھی کے کان میں سرگوشی کے ذریعے دلاوری دکھانے کی کہانی دہرانے والوں نے کبھی یہ زحمت ہی نہیں کی کہ تھوڑی تحقیق سے معلوم کرلیں کہBrasstacksکی مشقیں اپنے طے شدہ شیڈیول کے مطابق ختم ہوئی تھیں۔ پاکستان کا ایٹمی قوت بن جانا بھی بھارت کے لئے کوئی ”اطلاع“ ہرگز نہیں تھی۔
اسرائیل کا ایک شہر ہے حیفہ۔ وہاں کی ایک یونیورسٹی بہت مشہور ہے۔ اس کا ایک شعبہ پاک-بھارت معاملات پر تحقیق کے لئے وقف ہے۔ اسی شعبے نے بھارت کے اسرائیل کے ساتھ ابتدائی روابط سے لے کر ٹھوس دفاعی تعاون تک پہنچنے کی تاریخ بھی رقم کررکھی ہے۔ کبھی انٹرنیٹ پر شغل میلے سے فرصت ملے تو اس یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر نگاہ بھی ڈال لیں۔ وہاں تھوڑا وقت گزارنے کے بعد آپ خود دریافت کرلیں گے کہ 80ءکی دہائی کے آغاز کے ساتھ ہی بھارت نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر واویلا مچانا شروع کردیا تھا۔
امریکہ اور اس کے حواری مگر ان دنوں ”افغان جہاد“ کے ذریعے سوویت یونین کو زچ کرنے کی لگن میں مبتلا تھے۔ انہوں نے بھارتی واویلا پر کوئی توجہ نہ دی۔ بالآخر تنگ آکر بھارت نے اسرائیل سے روابط بڑھانے کافیصلہ کیا۔ بھارتی جاسوسوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بار ے میں جو مواد اکٹھا کررکھا تھا وہ اسرائیل کو پہنچادیا گیا۔ اس انتباہ کے ساتھ کہ پاکستان کا ایٹم بم ایک دن لیبیا، ایران یا سعودی عرب کے پاس پہنچ کر اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹاسکتا ہے۔
اسرائیل جاسوس ان دنوں ضیاءالحق کے امریکی دوست چارلی ولسن کے ذریعے افغان مجاہدین کے ساتھ رابطے میں تھے۔ ان میں سے چند کی مدد سے انہوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بھی نگاہ رکھی اور طے کرلیا کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت بن چکا ہے۔ اپنی اس ”دریافت“ کو اسرائیل نے واشنگٹن میں موجود بہت ہی مو¿ثر یہودی لابی کے ذریعے امریکی حکام تک پہنچانا شروع کردیا۔ امریکہ بڑی مکاری سے اس لابی کی فراہم کردہ ”معلومات“ کو محض دیکھتا اور سنتا رہا۔ بالآخر افغانستان میں ناکام ہوکر سوویت یونین نے وہاں مقیم اپنی افواج کا انخلاءمکمل کرلیا تو واشنگٹن حرکت میں آیا۔
ماسکو کے ایک دورے پر گئے اس زمانے کے امریکی نائب وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کو حکم ہوا کہ وہ سیدھا واشنگٹن آنے کی بجائے اسلام آباد جائیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو ان دنوں چند اسلامی ممالک کو کشمیر کے معاملے پر پاکستان کا بھرپور ساتھ دینے کے لئے آمادہ کرنے کے لئے بین الاقوامی دورے پر تھیں۔ پاکستانی وزیر اعظم کی عدم موجودگی میں رابرٹ گیٹس نے صدر غلام اسحاق کو متنبہ کیا کہ پاکستان ایٹمی پروگرام کے حوالے سے Red Lines پار کر چکا ہے۔ غلام اسحاق خان نے بڑی ”دلاوری“ سے اس کے الزام کو رد کردیا۔ فائدہ مگر کچھ نہ ہوا۔
امریکہ میںایک پریسلر ترمیم ہوا کرتی تھی۔ اس ترمیم کی بدولت امریکی صدر اگر اپنی ایجنسیوں کی معلومات کے برعکس یہ لکھ ڈالے کہ پاکستان ایٹم بم بنانے کے قریب نہیں پہنچ رہا تو اس کی ”امداد“ یعنی قرض وغیرہ جاری رکھی جاسکتی تھی۔ 1990ءمیں صدر بش نے وہ سرٹیفکیٹ نہ لکھا۔ پاکستان کی اقتصادی امداد بند ہوگئی۔ وہ F-16 طیارے بھی ہمیں نہ ملے جن کی قیمت ہم اقساط کے ذریعے باقاعدگی سے ادا کر رہے تھے۔
غلام اسحاق خان مگر اس ضمن میں امریکی حکومت کا کچھ بھی نہ بگاڑپائے۔ 6اگست 1990ءکے دن بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت البتہ انہوں نے کرپشن کے الزامات کے تحت ضرور فارغ کردی۔
نئے انتخابات کے ذریعے IJIنے جو مہم چلائی اس میں سب سے زیادہ زور اس الزام پر دیا گیا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر امریکہ کو خوش کرنے کے لئے ایک بزدلانہ سمجھوتہ کرلیا تھا۔ نواز شریف اس طاقت ور انتخابی مہم کی بدولت پہلی بار پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔
پھر انہیں بھی غلام اسحاق خان نے فارغ کردیا۔ ان کے بعد دوبارہ بے نظیر وزیر اعظم بنیں۔ انہیں صدر فاروق خان لغاری نے گھر بھیج دیا جس کے نتیجے میں وزیر اعظم ایک بار پھر ”بھاری اکثریت“ کے ساتھ ہمارے وزیر اعظم بن گئے۔ 1990ءسے حکومتیں آتی اور جاتی رہیں۔ امریکہ کے ساتھ ہمارے اقتصادی رشتے مگر بحال نہ ہوئے۔ بالآخر جنرل مشرف کو قدم بڑھانا پڑا۔
مشرف کے اس دلاورانہ اقدام کے باوجود پاکستان کے مسائل حل نہ ہوئے۔ امریکہ کو ایک بار پھر پاکستان کی یادستائی تو نائن الیون کے بعد۔ اس واقعہ کی بدولت Mush،امریکی صدر Bushکے Tight Buddy، یعنی جگری یار ہوگئے اور پاکستان میں War on Terror کی بدولت اقتصادی اُفق پر بھی کچھ رونق لگ گئی۔ اس رونق کا سارا کریڈٹ شوکت عزیز اور ان کے ماہرینِ اقتصادیات پر مشتمل ٹیم کو ملا۔ یہ الگ بات ہے کہ معاشی میدان میں ”معجزے“ دکھانے والے شوکت عزیز کو جنرل مشرف اور ان کی بنائی ق لیگ نے 2008ءکا انتخابات لڑنے کے لئے ٹکٹ ہی نہ دیا۔ ”ہنر مندوں“ کی ایسی بے قدری شاذ ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
نواز شریف صدر اوبامہ سے ملنے واشنگٹن جانے والے ہیں تو ”دلاوری“ کے مشورے ایک بارپھر مارکیٹ میں آگئے ہیں۔ کبھی کبھار تھوڑا سنجیدہ ہوکر دشمنوں کے بجائے اپنی حقیقتوں کی آنکھ میں آنکھ ڈالنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور آج ہمارے حکمرانوں کو یہی کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔