’’کشمیر بحران اور پیپلزپارٹی کا کردار‘‘

Oct 07, 2016

جہاں آراء وٹو

اس سال جون کے مہینے میں مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک نے ایک نئی سمت اختیار کی۔ نئی دہلی سرکار اور محبوبہ مفتی کی حکومت کی طرف سے لگائے جانے والے کرفیو نے کشمیریوں کے اندر غم و غصے کو اُجاگر کر دیا۔ گزشتہ تین مہینوں میں 80 سے زیادہ افراد شہید، ہزاروں زخمی اور کتنے سو افراد سکیورٹی فورسز کی طرف سے داغی جانے والی پیلٹس کی وجہ سے اندھے ہو چکے ہیں، کم از کم 17 صحافی جو کہ وہاں پر رپورٹنگ کے لئے موجود تھے زخمی ہوئے ہیں۔ کشمیر کی تحریک عروج پر ہے اور وہاں کے عوام حق اور بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ برہان وانی اور اس کے علاوہ آسیہ اندرابی جیسے کتنے مجاہدین نے یہ ثابت کیا کہ کشمیر کے اندر نوجوان اب انڈیا سرکار کے غاصبانہ قبضے سے تنگ آچکے ہیں۔ جس وقت اقوامِ عالم میں کشمیر میں ہونے والے مظالم پر آواز اٹھائی جارہی تھی انڈیا نے URI کے حملے کو بنیاد بنا کر پاکستان کے خلاف ایک محاذ کھول دیا اور اس وقت پوری دنیا کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ اس میں پاکستان کا ہاتھ تھا اور اس کی وجہ سے اس کو خطے میں تنہا کر دینا چاہیے۔ جس وقت آزاد کشمیر میں الیکشن مہم جاری تھی تو پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بہت واضح کہا کہ ’’مجھے ڈر ہے گجرات کا قصائی کہیں کشمیر کا قصائی نہ بن جائے‘‘۔
اس کے بعد چند مہینوں میں ہی یہ ثابت ہوا کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے مودی سرکار کے بارے میں صحیح مؤقف اختیار کیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے ہمیشہ مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری کی آواز اٹھائی ہے۔شہید ذوالفقار علی بھٹو نے UN جنرل اسمبلی کے سامنے کشمیر کے موضوع پر جو تقریر کی وہ تاریخ میں سنہری الفاظ میں لکھی جاتی ہے۔ ’’جموں اور کشمیر کہیں زیادہ پاکستان کا حصہ ہے جتنا کے کبھی انڈیا کا ہو سکتے ہیں۔ انڈیا چاہے جتنے بھی خوبصورت اور جدید الفاظ استعمال کرے۔ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ خون میں، ماس میں، ثقافت میں، تاریخ میں، جغرافیہ میں ہر طرح سے اور ہر قسم سے‘‘۔’’میرا یقین ہے کہ مسئلہ جموں و کشمیر سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان بہتر تعلقات کی۔ اس کا حل جائز حق اور کشمیری عوام کی آرزو کے مطابق ہونا چاہیے۔ کشمیر اور اس کے عوام کی پاکستان کے لئے ایک خاص اہمیت اور عالمیت ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس طرح کے مسئلے کا حل پرامن بات چیت سے نکالا جائے‘‘۔اور پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ ایک بار دوبارہ وہی پاکستان پیپلزپارٹی انتہائی نامساعد حالات میں آگے بڑھی اور ملکی سالمیت، عزت اور اصول کے لئے حکومت وقت کو مشورہ دیا کہ تمام پارٹیز کی کانفرنس منعقد کی جائے جو کہ صرف کشمیر کے مسئلے پر ہو۔پاکستان پیپلزپارٹی نے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ تمام سیاسی جماعتیں مسئلہ کشمیر پر کسی بھی طرح سمجھوتہ نہیں کریں گی۔ کشمیر کا مسئلہ ان کی عوام کی صوابدید کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ وہاں پر انڈین فورسز کو مظالم بند کرنے ہوں گے اور مسئلے کا حل باہمی بات چیت سے نکالنا ہو گا۔ دونوں ممالک کے عوام کسی بھی طرح جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔’’جنگ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ حکومت کو مسئلہ کشمیر پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے لیکن مسئلہ UN کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ پاکستان کو فوری طور پر وزیر خارجہ تعینات کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنا کردار ادا کر سکے۔ جیسا کہ وزیر خارجہ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کی زمین انڈیا کے قبضہ سے چھڑوائی اور ہزاروں قیدیوں کو 1971ء میں اپنی جارحانہ حکمت عملی سے آزاد کروایا‘‘۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان پیپلزپارٹی نے حکومت کو فوراً نیشنل سکیورٹی کونسل کا دوبارہ سے قیام، نیشنل ایکشن پلان کی پورے ملک میں بلاتفریق عملدرآمد اور CPEC پر تمام صوبوں کے تحفظات کو دور کرنے کا مسئلہ دیا۔ملک اس وقت جس نازک دور سے گزر رہا ہے اس میں ہم کو حب الوطنی کے ثبوت کے لئے بجائے مسئلوں پر سیاست کرنے کے متحد ہو کر ملک کا دفاع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

مزیدخبریں