ہمارے ایک جاننے والے ہیں۔ وہ بڑے متحرک اور سرگرم ہیں۔ ڈیڑھ دو ماہ بعد وہ ایک بڑی تقریب کرواتے ہیں۔ ملک بھر سے لوگوں کو جمع کرتے ہیں۔ اُن کو فائیو سٹار ہوٹلوں میں ٹھہراتے ہیں۔ لمبی تقریریں ہوتی ہیں۔ انسانی حقوق کی باتیں کی جاتی ہیں۔ کبھی عورتوں اور بچوں کے حقوق، کبھی ماحول کے تحفظ کی آواز، کبھی منشیات اور ایڈز کے خلاف تقریریں، سیمینارز، اگر تقریب نہ کریں تو کوئی واک یا احتجاجی مظاہرہ ضرور کرتے ہیں۔ اخبارات میں اُن کے بیانات شائع ہوتے رہتے ہیں مختلف ٹی وی چینلز پر بھی وہ اکثر بیٹھے اپنی رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
میں ان کو کافی عرصے سے جانتا ہوں۔ وہ غریب تو نہیں تھے لیکن امیر بھی نہیں تھے۔ بس متوسط طبقے سے ان کا تعلق تھا۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ان کے پاس بہت پیسہ آ گیا۔ یہ تبدیلی ایک این جی او بنانے کے بعد آئی۔ مکان کوٹھی میں بدل گیا، فارم ہاؤس علیحدہ بنا لیا، موٹرسائیکل سے چھوٹی گاڑی اور پھر بات پجارو اور لینڈ کروزر تک پہنچ گئی۔ آئے دن مختلف شہروں اور ملکوں کے دورے ہونے لگے۔
ایک روز میری اُس سے ملاقات ہوئی تو میں نے اُس سے پوچھ ہی لیا کہ تمہاری زندگی میں آرام نہیں ہے کبھی ٹک کر نہیں بیٹھتے۔ میری بات سُن کر مسکراتے ہوئے کہنے لگا ’’جو پیسے دیتے ہیں وہ آرام سے کہاں بیٹھنے دیتے ہیں۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
بولا: ’’تم بھی بڑے سادہ انسان ہو۔ سادہ نہ ہوتے تو اب تک بہت ترقی کر چکے ہوتے۔ اگر میں بھی تمہاری طرح ہی رہتا تو آج تمہاری طرح موٹربائیک پر ہی گھوم رہا ہوتا۔ بھولے بادشاہ ! یہ جو میں نے این جی او بنائی ہے اس کے لئے ہمیں باہر سے فنڈز ملتے ہیں جس کے بدلے میں ہم نے مختلف پروگرام، سیمینارز وغیرہ کروانے ہوتے ہیں۔ کبھی احتجاجی مظاہرے کرنے کا ٹاسک ملتا ہے۔ کچھ ہم نے رپورٹس تیار کر کے باہر بھجوانی ہوتی ہیں۔ مختلف طبقات کے حقوق کیلئے آواز اٹھانا ہوتی ہے۔ اسمبلیوں میں قوانین پاس کروانے کیلئے لابنگ کرنا ہوتی ہے۔ کبھی کبھی تو اچانک کوئی خاص پروگرام کرنے کو مل جاتا ہے اس کے لئے رقم بھی وافر مل جاتی ہے۔ ہم یہ سب نہ کریں تو ہمیں پیسے کون دے گا؟‘‘
میں نے اپنا تجسس دور کرنے کیلئے پوچھا۔ ’’ہمارے ملک میں انسانی حقوق کی بہتر صورتحال، قانون سازی، صحت، تعلیم اور ماحول کی بہتری میں ان لوگوں کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے جو وہ اتنی خطیر رقم خرچ کرتے ہیں؟‘‘
میرے اس سوال پر اس نے قہقہہ لگایا ’’یار تُم واقعی معصوم ہو۔ یہ بڑی طاقتیں اور اُن کے ذیلی اداروں کو ہمارے حقوق اور ہم سے کوئی غرض نہیں ہے۔ وہ تیسری دنیا کے ممالک کے مسائل کو حل نہیں کرنا چاہتے بلکہ انہیں مسائل میں الجھانا چاہتے ہیں۔ ان کو ہماری خواتین اور بچوں کے حقوق سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہماری عورتیں اور بچے حقوق کی آڑ میں مادرپدر آزاد ہو جائیں۔ اُن کی طرح ہمارے ہاں بھی ثقافت اور اخلاقی اقدار کا جنازہ نکل جائے۔ بنیاد پرستی ختم ہو جائے اور آزاد خیالی قائم ہو جائے۔ ہمارے پروگراموں میں لبرل ازم، آزاد خیالی بلکہ اخلاقی بگاڑ کا جتنا مظاہرہ کیا جاتا ہے ہمیں اتنے ہی زیادہ فنڈز ملتے ہیں۔ نئی نسل، نوجوان ہی اصل ہدف ہیں اس لیے وہ لابنگ کروا کر ہماری اسمبلیوں سے اپنی مرضی کے قانون منظور کرواتے ہیں۔‘‘
میں حیرت سے اُس کی باتیں سن رہا تھا۔ ’’یعنی تم لوگ اپنے ملک و قوم کی بہتری کے لئے کام نہیں کرتے؟‘‘
’’اب تُم سے کیا پردہ۔ ہم لوگ بیرون ملک سے پیسہ لے کر پریشر گروپ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ہم مختلف رپورٹیں تیار کر کے باہر بھجواتے ہیں تو عالمی فورمز پر ہمارے ملک کی سبکی اور بدنامی ہوتی ہے۔ ان رپورٹوں کی بنیاد پر تجارتی اور دیگر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں مختلف ممالک اور ادارے تجارتی اور باہمی مفاد کے معاہدے کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ ہماری مہم اور احتجاجی مظاہروں سے حکومت کمزور ہو جاتی ہے جس سے یہ عالمی طاقتیں ہمارے حکمرانوں کو بلیک میل کر کے اپنی مرضی کی پالیسیاں نافذ کرواتی ہیں۔ تعمیر و ترقی کا سفر رُک جاتا ہے اور ملک خوشحالی و استحکام کے بجائے انتشار کا شکار رہتا ہے اور یہی عالمی قوتیں چاہتی ہیں اور اسی مقصد کے لئے وہ ہمیں اتنا پیسہ دیتی ہیں۔‘‘
وہ بولتا چلا جا رہا تھا۔ مجھے غصہ آرہا تھا اور میرے دل میں اُس کے لئے نفرت پیدا ہو رہی تھی۔ میں نے غصے سے اُس سے پوچھا۔ ’’کیا پیسے کی خاطر وطن کی عزت و ناموس اور ترقی کا سودا کرتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آتی؟‘‘
وہ شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔ ’’اگر میں یہ نہ کروں تو اتنی شاہانہ زندگی کیسے گزاروں۔ مجھے ملک و قوم سے کوئی غرض نہیں۔ مجھے صرف اپنا مفاد اور عیاشی عزیز ہے۔ تم کو بھی میرا مشورہ یہی ہے۔ ہمارے ساتھ مل جاؤ پھر پیسہ ہی پیسہ اور عیاشی ہی عیاشی ہے۔‘‘
میں غصے سے اُسے گھورتے ہوئے وہاں سے اُٹھ کر چلا آیا۔
٭٭٭
پیارے قارئین ! اُس دن کے بعد سے ایک سوال مجھے پریشان کر رہا ہے۔ کیا اُس کا جواب دے کر آپ میری اُلجھن دور کر سکتے ہیں۔ کہ عمران خان نے سیاسی جماعت بنائی تھی یا این جی او…؟؟؟؟
ایجنڈا
Oct 07, 2016