”دنیا ہے کہ مانتی نہیں“

یہ تقریباً 45 سال کا قصہ ہے کہ افغانستان کے اندرونی مسائل پاکستان کی ریاست کے لئے ایک مستقل مسئلہ کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ظاہر شاہ کی بادشاہت ہو یا اشرف غنی کی صدارت ہمارے لئے خوشگوار تعلقات ایک خواب کی صورت بن چکے ہیں۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1974ءمیں صورت حال کو محسوس کرتے ہوئے بعض افغان رہنماﺅں کو پاکستان میں محفوظ مقامات پر پناہ دی تھی جبکہ صورت حال پر بھی پوری طرح اپنی توجہ مرکوز کر رکھی تھی۔ سابق سودیت یونین ایک طویل مدت سے امریکہ کے ساتھ سرد جنگ میں مصروف عمل تھا۔ برطانیہ بھی امریکہ کے ساتھ اس میں پوری طرح شریک تھا۔ 

افغانستان کے اندرونی حالات اور سودیت یونین کی پالیسی نے بالآخر ایسی افواج کو کابل کے اندر پہنچا دیا۔ سردار داﺅد‘ نجیب اللہ، ببرک کارمل، ترکئی کوئی بھی صورتحال کو نہ سنبھال سکا۔ ایک فوج وہاں کے اندرونی حالات تھے دوسرے گھریلو اور جنگجو پاکستان کے اندر موجود تھے اور ایک وقت میں تو تقریباً 3/4 دنیا جہادی گروپوں کی ہر طرح کی مدد کر رہی تھی خود امریکہ دنیا بھر سے مسلم نوجوان کو تربیت دیکر جہادی بنا رہا اور انکی عسکری اور عالمی مدد بھی کر رہا تھا۔ پاکستان کی حکومت، ادارے، سپاہ، سیاسی اور مذہبی جماعتیں غرض ریاست سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر روس کی مخالفت اور جہادی گروپوں کی مدد کرنا اپنا اولین فرض بنا چکے تھے۔ نتائج کی کسی کو کوئی پرواہ نہ تھی بس روس کو کمیونزم اور سوشلسٹ نظام کو شکست دینا ہی مقصود تھا۔
بھٹو پھانسی چڑھ گیا۔ ضیاءالحق بھی غیر طبعی موت کا شکار ہوئے۔ پرویز مشرف جس کے ساتھ کوئی بین الاقوامی رہنما بات کرنا نہیں چاہتا تھا وہ بھی دنیا کے لئے قابل قبول پھر اچھا دوست اور بعد ازاں بوجھ بن گیا۔ فوجی حکمرانوں کو افغانستان ہمیشہ راس آیا مگر پاکستان کے بھی مسائل میں اضافہ ہوتا رہا۔ یہ دنیا کا طرز عمل تھا یا ہمارا سیاسی رویہ اس پر ہم اپنی گفتگو کو آگے بڑھائیں گے۔ بے نظیر بھٹو نے طالبان تخلیق کروائے اور نواز شریف جہادی رہنماﺅں کو کعبتہ اللہ لے جا کر بھی وعدہ خلافی سے نہ روک سکے۔ طاقت، اقتدار، بے پناہ وسائل انسان کو بالعموم درندگی کے رویوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ انسانوں کا کس طرح قتل عام ہوا۔ کیسے معصوم بے گناہ زندگیوں سے محروم ہوئے۔ معذور ہونے کی تعداد کا کوئی اندازہ ہی نہیں۔ اربوں ڈالر لٹ گئے۔ بربریت، دہشت، انتہا پسندی، جاہلانہ طرز عمل سفاکانہ طرز عمل کا ہر روز مظاہرہ، خواتین پر بے جا جبر، بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی، اغوائ، بربادی اور پھر اجڈاور ضدی رویے افغانستان کو تو تباہ کر ہی رہے تھے اسکے بے شمار مالی، عسکری، سیاسی، سماجی، معاشرتی اور معاشی اثرات پاکستان میں اب تک موجود ہیں۔ دہشت گردی کی یہ پناہ گاہ پوری دنیا کے امن کےلئے بھی ایک شدید خطرہ بن چکی تھی گو یہ ابھی بھی ختم نہیں ہوئی اور اس کے سب سے زیادہ اثرات ہمارے ملک میں دیکھے اور محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ یہ بھی وجہ ہے کہ پاکستان بین الاقوامی سیاست اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک بڑے تصادم کا حصہ بن چکا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی پیمانہ مقرر کر لیا جائے اس تصادم اور اس میں ہمیں شریک کرنے کے تمام لوازمات، واقعات، حقائق اور ذمہ داری کا تعین افغانستان پر ہی ہو گا۔
اس صورت حال کی وجہ سے ہم ہر وقت حالت جنگ میں ہیں‘خواہ یہ اندرونی ہو یا خارجی۔ خوف اور خطرے کے گہرے بادل چھٹ ہی نہیں رہے اور نہ ہی کوئی چھٹنے دے رہا ہے۔ امریکہ ہو کہ بھارت یا افغانستان جب بھی صورتحال میں کوئی بہتری آتی ہے تو پھر ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے اور بین الاقوامی فورم اور میڈیا ہم سے غیرمطمئن ہو جاتا ہے ایک طرف یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا خود شکار ہے اور ڈومور کا فارمولا بھی تھما دیا جاتا ہے۔
کیا ہمارے لوگ یہ سوال کرنے میں حق بجانب نہیں کہ ہماری سیاسی قیادت، سول سوسائٹی، میڈیا، اہل دانش، عسکری قیادت اور مذہبی و گروہی جماعتیں افغانستان اور اس کے پاکستان پر اثرات، مضمرات، واقعات پر کوئی یکسوئی رکھتے بھی ہیں یا نہیں۔ اگر یکسوئی ہے تو نظر کیوں نہیں آتی۔ سب ایک آواز اختیار کیوں نہیں کرتے۔ غالباً یہی ایک وجہ ہے کہ ہم گزشتہ تیس سال سے نہ دنیا کو اور نہ ہی افغانیوں کو مطمئن کر سکے۔ میرے نزدیک اس میں بھی کسی حد تک بیرونی ہاتھ اور اس کی صفائی شامل ہے۔
ہمارا معاشرہ بہت حد تک غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔ معاشرے میں مذہبی جماعتوں کے اثرات سدھار پیدا کرنے کے لئے تو باقی نہیں بچے تاہم معاشرہ میں تقسیم اور تفریق کا کام بطریق احسن کرنے کی تمام صلاحیتوں کی پوری طرح حامل ہیں۔ جہاں تک طرز فکر، تعلیم کا تعلق ہے اس پر تو اب بات کرنا ہی بیکار ہے۔ ہر کوئی فرقہ کی بات کرتاہے۔ اللہ کا دین اور دین کے تقاضے بہت بعد کی بات رہ گئی ہے۔ جہاد، اسلامائزیشن، تربیت و تعلیم‘ تحمل، بردباری گویا یہ سب کچھ بہت ہی پیچیدہ ہو چکی ہے۔ ہمارا طرز عمل کیا ہے۔ دماغی طور پر ہم کس حال کو پہنچ چکے ہیں۔ ہمارے مقاصد کیا ہیں۔ ہم چاہتے کیا ہیں۔ ہمیں کرنا کیا ہے۔ ہمارا مطلوب و مقصود کیا ہے۔
ایک بار پھر واضح کرنا ہوگا اور دنیا کو بھی بتانا اور یقین دلانا ہوگا بصورت دیگر اگر صورت حال یہی رہی تو پھر بھی ہمیں یہ فیصلہ تو کرنا ہی ہو گا کہ ہماری بقا کا اب مسئلہ آ پہنچا ہے۔ تو کیا ہم بقا کی جنگ لڑیں گے یا اس سے بھی نظر بچانے کی سعی ہو گی اور اگر سعی کرنا ہی ہے تو پھر درست سمت میں کیوں نہیں کر لیتے۔ دنیا جانتی ہے کہ کسی ریاست، ملک یا سلطنت میں صورتحال واضح نہ ہو تو پھر ایسی ریاست، معاشرہ اور ملکوں میں موجود غیر ملکی عوامل جو موقع کی تلاش میں ہوا کرتے ہیں ان کو دخل اندازی سے کوئی نہیں روک سکتا۔
یہ امر بھی ایک حقیقت ہے کہ علاقائی تعلقات اگر معمول پر نہ رہیں اور ایک خاص مدت تک ابتری کی طرف جا رہے ہوں تو خطہ میں امن قائم نہیں رہ سکتا۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ خطہ پر امن نہیں ہوتا تو کیا ہم محفوظ اور جنگ سے دور رہ سکیں گے۔
میرے نزدیک خطہ میں امن کے بغیر سیاسی کلچر بھی فروغ نہیں پا سکے گا اور ہماری ریاست غیر ملکی سازشوں کا شکار بنتی رہے گی۔ ہم طویل عرصہ سے جس صورت حال کا شکار ہیں یہ ہماری اپنی پیدا کردہ نہیں بلکہ ہم اس میں خواہ مخواہ دھکیلے جا چکے ہیں اب تو صرف اس صورتحال میں سے نکلنے کی کوشش ہونی چاہئے جو ایک آسان کام نہ ہو گا۔
امریکہ نے جس نئی افغان پالیسی کا اعلان کیا ہے اس کا ایک حصہ غیراعلانیہ بھی ہے اور وہ ہے ڈو مور۔ ہم جواب بھی دے رہے ہیں۔ کوشش بھی کریں گے، تعلقات میں تعطل بھی پیدا نہیں کریں گے۔ صورتحال کا جائزہ لے کر نئی سمت کا تعین بھی کر رہے ہیں مگر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم رد عمل کی خارجہ پالیسی پر ہی عمل پیرا ہوں گے۔ غیر متاثر کن شخصیات خارجہ پالیسی کے حوالہ سے متاثر کن شخصیات اور پالیسی ساز اداروں کو متاثر کرنے سے قاصر بھی رہا کرتی ہیں اور اگر زبان اور الفاظ کی تراکیب سے کوئی غیر آشنا ہو تو پھر صورتحال ذرا مزید مشکل ہو جاتی ہے۔ دل و دماغ کی سمت بھی اگر یکطرفہ نہ ہو تو مدعا بیان کرنا اور ریاست کے فوائد حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔
انتہا پسندی، شدت پسندی، دہشت گردی کے الزامات ہم پر لگانے والوں کو دلیل کے ساتھ ہی بات سمجھانی ہوگی۔ امریکی پالیسی ہمارے لئے کسی بھی طرح اطمینان بخش نہیں۔ اندریں حالات ہماری ریاست خاموش تو نہیں رہ سکتی۔
ہماری حکومت کو پاکستان کے مفادات اور عوام کی پسند کو سامنے رکھ کر جواب دینا ہو گا بلکہ عمل کرنا ہوگا۔ ریاست خاموش تو نہیں رہ سکتی اسے عوام اور دنیا میں سے کسی ایک کو نہیں دونوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ اگر مولانا فضل الرحمن اور ایسی ہی دیگر شخصیات پر حملے ہوئے تو یہ حملہ آور کون تھے۔ فوجی جوانوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار شہید ہوئے تو ان پر حملہ آور کون تھے۔ امریکہ افغانستان کو عراق تو بنا نہیں سکتا۔ اور ہم اس سے دوری کر نہیں سکتے۔ ایسے حالات میں اگر ہماری ریاست نے خاموشی نہ توڑی تو اسکی خاموشی کئی نئے گروپ پیدا کر دے گی۔ نئے دھڑے اور گروپ ریاست کے لئے تباہی کا سامان پیدا کریں گے۔ نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عمل قوم کی آواز ہے اس آواز کی موجودگی میں کسی نئے راگ کی بھی ضرورت نہیں۔
ہمیں اپنی قومی اور یکجہتی کی بنا پر قائم آواز کو بلند کرنے کی ضرورت ہے اور یہ آواز پالیسی کی صورت میں بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے سے دنیا کو ہمارے مسائل، قربانی، عمل، ارادہ، قوت، غرض ہر شے واضح ہو جائے گی اور یہ ہمارے سفارتخانوں میں بیٹھے ہر افسر اور اہلکار کی ذمہ داری ہے۔ ایسے میں قومی آواز کو بلند نہ کرنے سے پاکستان غیر مستحکم ہو گا یہ غیر مستحکم پاکستان ہمیں قبول نہیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان کو تھوڑے وقت میں زیادہ کام کرنا ہے مگر ان کے پاس افرادی قوت اور صلاحیت سوالیہ نشان تو نہیں۔
افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی ناکامی طشت ازبام ہے مگر امریکہ کو بھارت کی منشا کو بھی پورا کرنا ہے لہٰذا ہمیں پورے اعتماد کے ساتھ اپنی کامیابیوں اور افغانستان میں موجود خرابیوں کا اظہار ہی کرنا چاہئے اور اس بات کا بھی یقین ہونا چاہئے کہ پاکستان اب مزید کچھ بھی کرے گا تو صرف پاکستان کے لئے ہی کرے گا۔

ای پیپر دی نیشن