مکرمی: 8اکتوبر2005 ءکے تباہ کن زلزلہ کی بارہویں برسی آرہی ہے۔ یقیناً آپ اس پر کچھ نہ کچھ شائع فرمائیں گے۔ گزارش ہے کہ ذیل کا مضمون زلزلہ کی تباہ کاریوں کی تصاویر کے ساتھ شائع فرمادیں تاکہ زلزلہ کے متاثرین کی یاد تازہ ہوسکے۔ اسی طرح اس مضمون کے ذریعے زلزلہ زدہ علاقوں کی مدد کرنے والے محسنین کاذکرکرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔انسانی معاشرہ ایک دوسرے سے مِل کر بنتا ہے اور کوئی فرد اکیلے مکمل نہیں ہوتا اُسے زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر دوسرے انسانوں کی مدد لینا پڑتی ہے۔ ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ یہیں سے جنم لیتا ہے۔ خوشی کے دنوں میں تو خیر لوگ ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہی ہیں، اصل امتحان مشکلات و مصائب میں ہوتا ہے کہ کون کِس کے کتنے دُکھ بانٹا ہے۔
08اکتوبر 2005ءکا زلزلہ بھی یہی پیغام لیے ہوئے تھا اس سانحہ کے رونما ہوتے ہی لوگ مصیبت زدہ افراد کی امداد کو نکل پڑے۔ جو کام اکیلی حکومت کے بَس میں نہ تھا وہ افراد، نجی اداروں اور تنظیموں نے کردکھایا اور بڑی حد تک متاثرین کے دُکھ درد بانٹ لیے تاہم زلزلے کےبارہ سال مکمل ہونے کے باوجود ابھی تک لوگوں کے زخم تازہ ہیں جو دنیا سے چلے گئے ان کی یادیں باقی ہیں اورجو زخمی ہوئے وہ کسی نہ کسی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔
زلزلے کے بعد آزاد کشمیر اور موجودہ خیبر پختونخواہ کے زلزلہ زد ہ علاقوں کا سروے کرنے کے بعد یہ بات کُھل کر سامنے آئی تھی کہ زلزلے نے انسانی خدمت کے جذبات کو فزوں تر کر دکھایا اور اِس سے عالمی قریے کا حقیقی تصور اُبھر کر سامنے آگیا جہاں ہر فرد دوسرے کے دُکھ کا شریک بنتا ہے۔ ہم عموماً دوسرے مُلکوں کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ وہ اپنے خصوصی اہداف کی تکمیل کے درپے رہتے ہیں، لیکن یہاں اس بات کا اعتراف ضروری ہے کہ زلزلے کے فوراً بعد کئی مقامات پر بیرونی دُنیا سے ٹیمیں پہنچیں تو انہوں نے زخمیوں کو منوں نہیں بلکہ ٹنوں وزنی ملبے کے نیچے سے نکالا۔ یہ غیر ملکی ٹیمیں ہی تھیں، جنہوں نے ہزاروں لاشیں نکالیں اور اُن کی تجہیز و تکفین کا اہتمام کیا۔اس کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔
اندرونِ ملک تنظیموں اور افراد نے بھی مقدور بھر یہی کام کیا اور یوں حکومت کا کام کسی حد تک آسان ہو گیا۔ افراد کے ضمن میں تو یہ کالم کسی بھی فرد کے ذکر کا متحمل نہیں ہو سکتا، اِس لیے کہ زلزلے اور سیلاب کے بعد پاکستان کی پوری آبادی ہی کسی نہ کسی انداز میں متحرک ہو گئی تھی اور صورتحال یہ بنی کہ لوگوں نے اپنا سب کچھ پیش کر دیاتھا۔ کئی مقامات پر دیکھا گیا کہ عورتوں نے اپنے سارے زیور، ملبوسات اور بچوں نے اپنے جیب خرچ تک نچھاور کر دیئے۔ کئی مقامات پر ساڑھیا ں اور نکٹائیاں جمع ہوجانے کا سبب یہی تھا کہ لوگوں کے سامنے جو بھی آرہا تھا وہ متاثرین کے لیے پیش کر رہے تھے۔ کئی جگہوں پر ایسا ہوا کہ گھروں میں کام کرنے والی عورتوں نے اپنی معمولی سی تنخواہ بھی نذر کر دی اور خود فاقوںپر اکتفا کر لیا۔ اس طرح کی ایک نہیں ہزاروں مثالیں موجود ہیں ان کی جتنی بھی قدر کی جائے کم ہے۔ اِسی صورتحال کو دیکھ کر امریکہ کے ایک تھنک ٹینک کو برملا یہ تسلیم کرنا پڑاتھا کہ امریکی سب سے زیادہ خیرات دینے کا دعویٰ کرتے تھے، لیکن پاکستانیوں نے جو کردکھایا، وہ امریکیوں سے آگے بڑھ گئے۔ امریکی تھنک ٹینک کے مطابق جذبے میں پاکستانی پہلے نمبر پر لیکن آبادی اور فی کس آمدنی کے اعتبار سے پوری دُنیا میں خیر و فلاح کا کام کرنے والے چھٹے ملک کے شہری ٹھہرے ہیں۔ (بحوالہ ڈان ریویو۔ یکم تا 7دسمبر 2005ئ)پاکستانیوں اور کشمیریوں کی ایک بڑی آبادی بیرون ملک مقیم ہے، انہوں نے بھی مصیبت کی گھڑی میں آگے بڑھ کر کام کیا۔ بات ناقابل یقین ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ انفرادی حیثیت میں کئی لوگوں نے کروڑوں روپے زلزلہ زدگان میں تقسیم کیے۔ آغاز ایدھی فاو¿نڈیشن سے، جس کے بانی عبدالستار ایدھی (مرحوم) خدمت خلق کی علامت تھے۔ بلا مبالغہ ایدھی فاو¿نڈیشن کا کام سب کے لیے مثالی رہا۔ تمام علاقوں میں ایدھی فاو¿نڈیشن کے رضا کاروں نے فوج کی بھی مدد کی۔ کیوبا کے ڈاکٹر اور سٹاف، ترکی، ایران،سعودی عرب، امریکہ،کویت، امارات، قطر،بحرین، لیبیا (اب تباہ شدہ) اور دیگر مسلم ممالک کی جمعیت ہائے ہلال احمر،انٹر نیشنل ریڈ کراس، ملائیشیاکی مرسی انٹرنیشنل، اے آرسی، صحت کی عالمی تنظیم، اقوام متحدہ، یونیسف، خوراک کا عالمی ادارہ، آغا خان فاو¿نڈیشن، سنگی، کشمیر ایجوکیشن فاو¿نڈیشن، اقبال احمد فاو¿نڈیشن، عورت فاو¿نڈیشن، شرکت گاہ، عمر فاو¿نڈیشن،فوکس انٹر نیشنل،انٹر لوپ، کیئر انٹر نیشنل، کینیڈین انٹر نیشنل ڈیولپمنٹ ایجنسی، سٹیزن فاو¿نڈیشن، اناطولین ترقیاتی فاو¿نڈیشن تُرکی،ہیکس سوئٹزرلینڈ، گول،سیودی چلڈرن، طبیبان بے سرحد، آکسفیم، آڈرا، آئی او ایم، غربت کے خلاف عالمی لیگ، پیس ونڈ جاپان، نیٹو، SOS، ایکشن ایڈ، کے این ایچ، ٹی ڈی ایچ تھائی لینڈ، اور اِس طرح کی بے شمار تنظیموں نے قابل قدر کارنامے انجام دیئے۔
(جاری ہے)