جناب رضا ربانی اور پارلیمان کی توقیر؟

جمہوریت پسندوں کیلئے یہ بات یقینا بڑی خوش آئند ہے کہ سینٹ کے چیئرمین جناب رضا ربانی پارلیمنٹ کو حقیقی معنوں میں مقتدر اورجمہوریت کو اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ پھلتا پھولتا دیکھنے کی خواہش کے اظہار کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اس حوالے سے گزشتہ دنوں انہوں نے بلوچستان اسمبلی کی سپیکر راحیلہ حمید درانی کی قیادت میں کمیٹیوں کے چیئرمینوں‘ ارکان اور دیگر حکام پر مشتمل ایوان بالا کا دورہ کرنے والے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمان کے دونوں ایوان اور صوبائی اسمبلیاں اپنا آئینی کردار ادا کریں تو ملک میں جمہوریت مضبوط ہوگی۔ ہم اپنے اختیارات اور دائرہ کار کو محدود کریں گے تو دیگر ادارے پارلیمان کی حدود میں جب چاہیں گے داخل ہونگے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اقتدار کی تکون میں پارلیمان سب سے کمزور ادارہ ہے اور اس کے دائرہ اختیار میں اکثر دیگر اداروں نے مداخلت کی۔ اس لحاظ سے جناب رضا ربانی کا دم غنیمت ہے کہ جمہوری انداز و روایات کو بیخ دین سے اکھاڑ پھینکنے کی دوڑ میں کوئی تو ہے جسے پارلیمنٹ کے مقتدر نہ ہونے اور اپنا آئینی کردار حقیقی معنوں میں ادا نہ کرنے کا غم کھاتا رہتا ہے مگر جناب رضا ربانی کو پارلیمان کے اختیارات میں دیگر دو اداروں کی مداخلت کا جو شکوہ ہے‘ انہیں اس کے محرکات اور نقائص کو کسی صورت فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ تاریخ کی اس حقیقت کو لمحہ بھر کیلئے بھی بھولنا نہیں چاہئے کہ ملکی اقتدار پر اپنے اپنے دور میں طالع آزماﺅں کی حریض نظروں کے باوجود پاکستان کی پارلیمنٹ کبھی بے توقیر ادارہ نہیں تھا۔ اسی ملک کی ترقی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان جمہوری روایات و اقدار کے فروغ و بقاءمیں ہمیشہ سرگرم رہے اور پاکستان میں صحت مند جمہوری روایات کی پامالی کے حوالے سے ان کا دامن کبھی داغدار نہ ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد کے تین عشروں کے طویل عرصے کے دوران معرض وجود میں آنے والی پارلیمنٹ یا قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اپنی پاکدامنی اور جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد کے حوالے سے بجا طور پر یہ کہنے کا حق رکھتے تھے کہ ”دامن نچوڑ دوں تو فرشتے وضو کریں۔“پارلیمنٹ کی بے توقیری کا مسئلہ بیرونی عناصر کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے اپنے دور کے ان عناصر کے پارلیمان میں در آنے سے پیدا ہوا جو طالع آزماﺅں کے عہد میں سیاست کے صاف ستھرے تالاب میں مخصوص مقاصد کے تحت ”چھوڑے“ گئے۔ اس حوالے سے یہ حقیقت ذہن نشین کرنے کی ہے کہ طالع آزماﺅں کے پروردہ ایسے عناصر قطعی طورپر سیاسی تالاب کو گدلا کرنے کیلئے بھیجے گئے تھے بلکہ یہ حریص اقتدار طالع آزماﺅں کے مقاصد کے حصول کی خاطر فیصلے تھے۔طالع آزماﺅں کی مخصوص مفادات کے تحت میان سیاست میں داخل کی گئی اسی کھیپ نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ایوانوں میں حرص‘ ہوس اور طمع کے ایسے ایسے گل کھلائے کہ جن سے انسانیت منہ چھپانے پر مجبور ہوئی۔ جمہوری اداروں میں ارکان کا جمہوری اور آئینی کردار نہ ہونے پر رضا بانی اکثر اوقات جس کرب کا اظہار کرتے سُنے جاتے ہیں‘ انہیں ”ہم ایسے عاجزوں سے تاریخ کا یہ سبق“ حاصل کرنے میں عار محسوس نہیں کرنی چاہئے کہ جمہوریت پر شب خون مارنے والے طالع آزماﺅں کے پروردہ ارکان اسمبلی ہی وفاق اور صوبائی حکومتوں کے ایوان اقتدار کی زینت بنے رہے اور پھر انہی کے ہاتھوں ہر سطح پر جمہوریت ہی نہیں‘ پارلیمان بھی اپنا مقام قائم نہ رکھ سکی۔
ایسے حقائق کی روشنی میں اس الزام میں کوئی حقیقت نہیں رہتی۔ دو اداروں نے اکثر پارلیمنٹ کے اختیارات میں مداخلت کی۔ اگرچہ مروجہ ناقابل فخر روایت کے مطابق جناب رضا ربانی نے بھی متذکرہ دو اداروں کے نام لینے سے گریز کیا ہے مگر اب یہ بات پوشیدہ نہیں رہی کہ دوسروں کی دیکھا دیکھی انہوں نے پارلیمنٹ کے کئے دھرے سے صرف نظر کرکے دوسرے اداروں کو ہدف تنقید بنانے کی کوشش کی ہے۔ پارلیمنٹ یا دونوں ایوانوں اور صوبائی اسمبلیوں نے اپنے طرزعمل اور قول و فعل کے تضادات کے نتیجے میں جمہوری اداروں کے وقار کو گرا کر رکھ دیا۔ جن ارکان سے جناب رضا ربانی اُمیدیں لگائے ہیں‘ جمہوری اداروں کے ارکان کی سابقہ تاریخ کچھ یوں ہے کہ 1985ءکے غیر جماعتی انتخابات میں کامیاب ہونے والے ارکان پارلیمنٹ کو اسلام آباد میں رشوت کے طورپر جو پلاٹ الاٹ کئے گئے‘ ایسے ارکان پارلیمنٹ کی تعداد 145 تھی۔ اس میں ایسے ایسے بزرجمہروں کے نام ہیں تو ابھی تک میدان سیاست میں جگمگا رہے ہیں۔ اسی طرح جب غلام حیدر وائیں (مرحوم) پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں جو 25 مئی 1992ءکو ہوا تھا‘ وقفہ سوالات کے دوران ایک سوال کے جواب میں یہ عقدہ کھلا کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران میں محمد علی جوہر ٹاﺅن لاہور میں حکومتی پارٹی مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹروں کو 90 ہزار روپے فی کنال کے حساب سے ایک ایک کنال کے پلاٹ الاٹ کئے گئے۔ لطف کی بات یہ تھی کہ جن ارکان کا تعلق لاہور سے نہیں تھا‘ انہیں بھی یہ پلاٹ الاٹ ہوئے۔ہر محب وطن پاکستانی کیلئے یہ بات باعث فخر و انبساط ہے کہ پاکستان سراسر جمہوریت کی پیداوار ہے۔ جمہوریت پاکستان کے خمیر میں شامل ہے مگر .... افسوس پاکستان کی سیاسی تاریخ جمہوریت کے نام سے عوام کے ووٹ حاصل کرکے اقتدار کے گھوڑے پر سوار ہونے والے عناصر کی بدعہدیوں‘ بداعمالیوں اور بدعنوانیوں کی ہیبت ناک داستانیں اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔
بلاشبہ جمہوری ممالک میں پارلیمان کو تمام اداروں پر بالادستی کا حق حاصل ہے مگر دیگر اہم ترین قومی اداروں کو آئینی طورپر جو عزت و توقیر اور مقام و مرتبہ حاصل ہوتاہے۔ اسے کسی بھی جمہوری معاشرے میں چیلنج کیا جاتا ہے نہ ہی ان کے آئینی حق کے استعمال کرنے پر انہیں نشانہ تضحیک بننے کی راہیں ہموار کی جاتی ہیں۔ اقتدار کی تکون کے دو اداروں پر حرف زنی کرتے ہوئے ارکان پارلیمان کے طرز عمل پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کون نہیں جانتا کہ پارلیمنٹ میں اکثریت کی بنیاد پر من پسند عدالتی نظام رائج کرنے کی خاطر دہشت گردی کے خاتمہ کی آڑ میں 15 اگست 1997ءکو قومی اسمبلی اور سینٹ سے خصوصی عدالتوں کے قیام کا قانون منظور کرا لیا گیا اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اسے متوازی عدالتی قرار دیتے ہوئے نا پسند کیا تھا اور پھر آئین میں چودھویں ترمیم کے خلاف نوابزادہ نصر اللہ خان (مرحوم ) کی جانب سے دائر کی گئی آئینی رٹ درخواست کو سپریم کورٹ نے منظور کرتے ہوئے عبوری طور پر 14 ویں ترمیم کو معطل کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ اگر یہ ترمیم موجود رہی تو ارکان کو اپنی نشستیں گنوانے کا خطرہ رہے گا اس فیصلے کے خلاف اس وقت کی مسلم لیگی حکومت سخت سیخ پا ہوئی اور وقت کے وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس بھی چیف جسٹس کے خلاف غلیظ زبان استعمال کی گئی ۔ اس پر کارروائی کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اپنا آئینی حق استعمال کیا اور جمع کرائی گئی دو درخواستوں پر وفاقی حکومت اور اجلاس میں شریک وفاقی وزراءاور دیگر ارکان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرتے ہوئے 3 نومبر 1997ءکے لئے نوٹس جاری کر دئیے مگر اسی وقت کے حکمران ایک آئینی ادارے کے حق قانون کے استعمال کرنے پر بیٹھ گئے جس کے نتیجے میں 27 اکتوبر 1997ءکو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے کمرہ عدالت پر حملہ کر دیا گیا۔ اسی مقصد کے لئے بھیجے گئے لوگوں کو خصوصی طور پر بسوں اور گاڑیوں میں بھیجا گیا تھا۔ ان میں ارکان قومی و صوبائی اسبملی سمیت دیگر لوگ بھی شامل تھے ان کے قیام و طعام کا بندوبست پنجاب ہاﺅس اسلام آباد میں کیا گیا تھا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...