ایک دور تھا جب نعت خوانی کو صرف حصول برکت اور اظہار محبت کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ میں نے چونکہ اپنے والد کو نعت خوانی کرتے ہوئے دیکھا بھی اور سنا بھی۔ وہ جب نعت پڑھتے تھے تو سراپا عقیدت و محبت بن جاتے تھے اور ان کی پر سوز آواز دلوں کو روشن اور پلکوں کو نم کر دیتی تھی۔ کیونکہ انہوں نے تمام عمر عشق رسول میں ڈوب کر نعت لکھی بھی اور نعت پڑھی بھی۔ اسی لئے خواص و عوام انہیں نعت خواںوں کا امام اور نعت گو شعراءکا پیش امام کہتے ہیں۔ ان کے وصال کے بعد یہ اعزاز میرے حصے میں آیا اور میں نے بھی والد گرامی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بغیر کسی لالچ اور غرض کے نعت خوانی کی اور کر رہا ہوں۔ پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس مقدص و مکرم میدان میں ایسے ایسے شعبدہ باز آتے گئے کہ نہ تو نعت خوانی کا کوئی معیار رہا اور نہ ہی کلام کا۔ ان لوگوں نے اس اعزازی اور عشقیہ اظہار کو کچھ یوں کمرشلائز کیا کہ اسے باقاعدہ کاروبار بنا دیا گیا۔ اب جن نعت خواںوں کا نام سب سے اوپر لکھا ہوا دکھائی دیتا ہے وہ اتنے ہی بڑے کاروباری اور نعت خوانی کے آداب سے بے بہرہ ہیں۔ ان تماشہ گروں نے نعت کو فلمی دھنوں پر گانے سے لے کر مختلف سازوں کا سہارا لیا اور اس پر متزاد یہ کہ زنانہ لباس کو زیب تن کرنے کا رواج ڈال دیا۔ اب جو نعت خواں سادہ شلوار قمیض اور جناح کیپ پہن کر نعت پڑھتا ہے اسے نہ تو عوام کی توجہ حاصل ہوتی ہے اور نہ محفل کرنے والوں کی۔ ان کاروباری نعت خواںوں میں اکثریت کا تعلق کراچی سے ہے۔ کراچی ہمارا بہت اہم اور بہت بڑا شہر ہے۔ اور وہاں کے لوگوں کی ذہنیت بھی کاروباری ہے۔لہٰذا نعت خوانی کو بھی بزنس کی طرح منافع بخش کام بنانے کا ”کارنامہ“ انہوں نے انجام دیا ہے۔ یہ محفل پر جانے سے پہلے باقاعدہ منتظمین سے معاوضہ طے کرتے ہیں۔ پچاس فیصد معاوضہ ایڈوانس لیا جاتا ہے اور باقی رقم محفل میں پہنچ کر نعت پڑھنے سے قبل وصول کر لی جاتی ہے۔ بلکہ عوام نے اب ان نعت خواںوں کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو اس منافع بخش کام میں ڈال دیا ہے۔ یہ معصوم بچے بچپن ہی سے پیسوں کے لالچ اور طمع میں گرفتار ہو جاتے ہیں اور پڑھنا لکھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ جبکہ یہ ارشاد گرامی اسی ہستی کا ہے جن کی نعتیں یہ لوگ پڑھ رہے ہیں کہ ”علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و زن پر فرض ہے“ اور یہ نعت خواں علم و ادب سے اتنے ہی دور اور نابلد ہیں جتنا بھینس بینس سے دور ہوتی ہے۔ لاہور کے نعت خواں نسبتاً بہتر ہیں۔ کیونکہ نہ تو یہ زرق برق لباس پہنتے ہیں اور نہ ان کی طرح سٹیج پر ڈرامہ بازیاں کرتے ہیں اور نہ ان کی طرح اس مقدس کام کو بزنس سمجھتے ہیں۔ نعت خوانی کے آداب میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا از بس ضروری ہے۔
۱:۔ نعت خواں با وضو ہو کر سٹیج اور محفل میں آئے۔۲:۔ نعت خواں کی پوری توجہ صرف رسالت مآب اور گنبدِ خضرا کی جانب رہے۔۳:۔ نعت خوانی بھی نماز کی طرح خشوع و خضوع اور یکسوئی سے کی جائے۔۴:۔ کلام اعلیٰ معیار کا چنا جائے جس میں کوئی ایک لفظ بھی شان اقدس کے تقاضوں سے کم تر نہ ہو۔۵:۔ طرز فلمی نہ ہو بلکہ خالص نعت کی طرز اپنائی جائے جس کے لئے اساتذہ کرام کی نعتوں کو سننا لازم ہے۔ جن میں حضرت اعظم چشتیؒ، حضرت محمد علی ظہوریؒ اور جناب سید منظور الکونینؒ وغیرھم۔۶:۔ نعت خوانی کے کسی مصرع پر عوام کو ساتھ ملانے پر اصرار نہ کیا جائے، اگر عوام خود ساتھ ملنا چاہیں تو اور بات ہے۔ اس سے کیف و سرور کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ ۷:۔ محفل میں اطمینان سے اور جلدی پہنچ کر بیٹھنا حصول ثواب بھی ہے اور اس سے یکسوئی بھی حاصل ہوتی ہے۔ اپنی باری کا سکون سے انتظار کریں اور بار بار گھڑی مت دیکھی جائے۔۸:۔ نیت یہ ہو کہ سرکاری دو عالم کی بارگاہ میں شایان شان گلدستہ نعت پیش کیا جائے نہ کہ نذرانوں کا حصول۔
اگر ان چند باتوں کو ہر نعت خواں عملی طور پر اپنا لے تو میرا دعویٰ ہے کہ اس دنیا بھی خوشحال ہو گی اور آخرت بھی سنور جائےگی۔ کیونکہ نذرانے تو حضورِ پر نور کا نام لیتے ہی ملنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اگر نیت صرف نذرانوں کی ہو تو وہ تو پوری ہو جائےگی لیکن سرکار کی خوشنودی کا مرحلہ طے نہ ہو پائے گا۔ کیونکہ حدیث مبارکہ ہے ”عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے“۔
میں تمام نعت خوانوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس مقدس اور عشق رسول سے لبریز فن کو کمرشل ازم اور کاروباری حربوں کی آمد تشوں سے آلودہ نہ کریں۔ نعت کا تقدس اگر نعت خواں ہی قائم نہ رکھیں گے تو کون رکھے گا؟ اس کام کیلئے کسی تنظیم، کسی ادارے یا کسی خاص شخصیت کی محتاجی نہیں ہونا چاہئے بلکہ نعت خوانوں کو اپنا فریضہ سمجھ کر اسے ادا کرنا چاہئے تاکہ آنےوالی نسل نعت خوانوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھے۔ کیونکہ سچی بات یہ ہے کہ اس وقت نعت خواں ہونا کوئی۔۔۔ میں کچھ کہنا بھی گستاخی سمجھتا ہوں۔ لہٰذا کوئی بے ادبی نہیں کر سکتا ....ع
صدائے عام ہے باران نکتہ داں کے لئے
٭....٭....٭....٭....٭....٭....٭