مکرمی! دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں وہاں کے شہریوں کی پہچان کیلئے شناختی کارڈ جاری کئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں یہ عمل ”نادرا“ مکمل کرتا ہے۔ اس کے باوجود بعض اوقات کسی شہری کی پہچان نہیں ہو پاتی۔ مثال کے طورپر کوئی قاتل مقتول کو قتل کرنے کے بعد اس کا سر غائب کر دیتا ہے تو لاش کی پہچان پولیس یا متعلقہ اداروں کیلئے بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ ملک کئی سالوں سے دشمن ملک کی ریشہ دوانیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ دہشت گردی میں موت کے گھاٹ اتر جانے والوں کے جسم کے ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔ شناختی کارڈ تو درکنار‘ لباس تار تار ہو جاتے ہیں۔ ان کی شناخت نہیں ہو پاتی۔ ویسے بھی کچھ لوگ شناختی کارڈ یا کاغذات بوجوہ پاس نہیں رکھتے۔ اگر وہ کسی حادثہ کا شکار ہو جائیں تو ان کی شناخت بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ بعض معاملات میں لاش کی شناخت انتہائی ضروری ہوتی ہے جس کیلئے حکومتی اہلکار طویل عرصہ تک سرگرداں رہتے ہیں۔ پھر بھی سو فیصد نتائج حاصل نہیں ہوتے۔ ایک طریقہ پیش خدمت ہے۔ یہ کام اگرچہ صبرآزما اور مشفقت طلب ہے‘ لیکن ناممکن نہیں۔ ہر پاکستانی کے بازو کے اوپر والے حصہ کے باہر کی طرف بذریعہ ٹیٹو شناختی نمبر کندہ کئے جائیں۔ نمبروں کی طوالت کم کرنے کیلئے شناخی کارڈپر دیئے گئے نمبر کو خفیہ طورپر دوسرے نمبر سے تبدیل کرکے انعامی بانڈز یا کرنسی نوٹوں پر دیئے گئے نمبروں کی طرز پر انگریزی حروف تہجی اے بی سی وغیرہ سے منسلک کرکے بریکٹ کیا جائے تاکہ اس نمبر میں تخفیف یا اضافہ نہ کیا جا سکے۔ بازو پر کندہ شناختی نمبر سے کسی بھی زندہ یا مردہ شخص کی شناخت میں آسانی ہو سکے گی۔(بشیر احمد‘ کاشانہ نوبہار نمبر 87 گلی نمبر 7 محلہ رسول نگر‘ ونڈالہ روڈ شاہدرہ لاہور)