واشنگٹن (نیوز ایجنسیاں) وزیرخارجہ خواجہ آصف نے امریکی قومی سلامتی کے مشیر مک ماسٹر سے وائٹ ہائوس میں ملاقات کی۔ ملاقات میں دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر دونوں رہنمائوں کے درمیان باہمی تعاون بڑھانے کے طریقوں پر بات کی گئی جبکہ خواجہ آصف نے مک ماسٹر کو جنوبی ایشیا کیلئے نئی امریکی پالیسی پر پاکستان کے موقف سے آگاہ کیا۔ دریں اثناء واشنگٹن میں امریکی اور بین الاقوامی میڈیا سے گفتگو کی۔ مزید تفصیلات کے مطابق وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاکستان امریکہ سے تعلقات کو اہمیت دیتا ہے، ڈرون حملوں میں طالبان لیڈر ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد طالبان پر پاکستان کا اثر کم ہوا ہے۔ اختر منصور پر ڈرون حملہ امن بات چیت کو سبوتاژ کرنے کے لئے تھا۔ انہوں نے کہا ہم یہ نہیں کہہ رہے ہم ولی ہیں۔ ماضی میں ہم سے بھی غلطیاں ہوئی ہوں گی۔ صرف پاکستان کو مورد الزام نہ ٹھہرایا جائے۔ یکسوئی کیساتھ دہشت گردوں کیخلاف کارروائی کر رہے ہیں۔ امریکہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی نشاندہی کرے ہم بمباری کرینگے۔ انہوں نے کہا ملا عمر کی موت سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو سخت دھچکہ لگا۔ طالبان سے مذاکرات کے لیے ایک اور کوشش 16 اکتوبر کو مسقط میں ہوگی جہاں 4 فریقی ملاقات ہوگی۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کو نہ صرف امریکہ بلکہ طالبان سے بھی اعتماد کی کمی کا سامنا ہے۔ خواجہ محمد آصف نے امریکہ پر دہشتگردی کیخلاف جنگ میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے اردن کو ایف16طیاروں کی فراہمی سے روکا۔ پاکستانی مدارس دہشتگردوں کی نرسریاں نہیں، دنیا کے سب سے بڑے فلاحی ادارے ہیں۔ امریکی وزیر دفاع کے بیان کے تناظر میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کسی کا نام لیے بغیر کہا 'جب ہمیں کوئی کہتا ہے کہ یہ آخری موقع ہے، تو یہ ہمیں قابل قبول نہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے تسلیم کیا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں اور ہم انھیں حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تین دن پہلے ہی جب ہمارے آرمی چیف کابل کے دورے پر تھے، انہوں نے پیشکش کی ہے کہ وہ ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کریں۔ ہم افغان کمانڈروں کو ہیلی کاپٹر میں ساتھ بٹھا کر آپریشن کے لیے تیار ہیں۔ وہ ہمیں بتائیں جہاں جانا ہے۔ ہم جائیں گے۔ اگر وہ ہم سے چاہتے ہیں کہ ہم ان کا کھوج لگائیں۔ ہم لگائیں گے۔ اگر وہ کہتے ہیں کہ ان کے خلاف ہم کوئی ایکشن لیں، تو وہ جو بھی اقدام تجویز کریں گے، ہم وہ اقدام لیں گے۔ لیکن محض کھوکھلے الزامات قابل قبول نہیں ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہوگی کہ تین چار روز قبل کابل اور اسلام آباد کے درمیاں جو دو طرفہ روابط بحال ہوئے ہیں، امریکہ اس عمل میں ہماری مدد کرے۔ انھوں نے مزید کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں برف پگھلی ہے اور امریکہ کی بطور سہولت کار ہمیں ضرورت ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ جب وہ اپنے گھر کو درست کرنے کی بات کرتے ہیں تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں بلکہ پاکستان میں نیشنل ایکشن پلان پر تمام سیاسی اور فوجی قیادت متفق ہے اور ہاؤس ان آرڈر لانے کے لیے اس منصوبے پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ وزیر خارجہ نے ماضی کی متعدد مثالیں دیتے ہوئے امریکہ کو خبردار کیا کہ امریکہ ویت نام کی جنگ میں بھی شکست سے دوچار ہوا تھا اور اسے افغانستان میں بھی شکست کا سامنا ہے اور اب وہ خفت میں پاکستان پر بلا وجہ الزام لگا رہا ہے۔خواجہ آصف نے لاس ویگاس میں ہونے والے حالیہ قتل عام کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت بڑا المیہ ہے۔ تاہم امریکہ اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار نہیں دیتا اور یہ بات ناقابل فہم ہے۔ ملک میں جمہویت مضبوط ہے، عدلیہ آزاد ہے، میڈیا فعال ہے اور فوج اور حکومت کے درمیان ورکنگ تعلقات قائم ہیں۔ لیکن پاکستان میں کوئی بڑا بحران موجود نہیں ہے اور حکومت وہاں موجود مسائل پر قابو پا لے گی۔ خواجہ محمد آصف نے افغانستان سے متعلق ٹرمپ کی نئی پالیسی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد کی اصل تشویش امریکہ کے نئے منصوبے میں بھارت کے کردار سے متعلق ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں پاکستان کے سفارت خانے میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے خواجہ محمد آصف کا کہنا تھا کہ واشنگٹن کی جانب سے جنوبی ایشیاء سے متعلق نئی پالیسی کے اعلان کے مطابق پاک امریکہ دو طرفہ تعلقات ایک نیا موڑ لے چکے ہیں۔ اگر ایک جانب امریکہ کو افغانستان کے مستقبل کے بارے میں تشویش ہے تو پاکستان بھی خطے کے حوالے سے متعدد مرتبہ اپنی تشویش کا اظہار کرتا رہا ہے۔ ہمیں عمومی طور پر بھارت سے متعلق ٹرمپ کی نئی پالیسی پر تشویش ہے اور خصوصی طور پر بلوچستان کو غیرمستحکم کرنے کے حوالے سے بھارت کے اقدامات پر تشویش ہے۔ علاوہ ازیں وزیر دفاع خرم دستگیر نے کہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی تقریر میں پاکستان سے کام کرنے کا عندیہ نہیں تھا، ٹرمپ نے پاکستان کو دھمکیاں دیں۔ وزیر خارجہ نے امریکہ کو پاکستانی موقف سے آگاہ کر دیا ہے۔ پاکستان امریکہ سے برابری اور حقیقت پر مبنی تعلقات چاہتا ہے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع خرم دستگیر نے کہا کہ امریکی افواج عراق اور افغانستان میں ناکام ہو چکی ہے۔ امریکی جنرل نے خود اعتراف کیا ہے کہ پورے افغانستان پر امریکی کنٹرول نہیں ہے۔ افغانستان میں امریکہ کے اصل مقاصد کیا ہیں نہیں معلوم ہے۔ افغانستان میں امن عمل کی حمایت کریں گے، بھارت کا افغانستان میں کردار خطے کے امن کیلئے خطرہ ہے۔
نیویارک (این این آئی+ نیٹ نیوز) اقوام متحدہ میں سفیر ملیحہ لودھی نے کہا ہے کہ پاکستان نے دنیا میں سب سے بڑا انسداد دہشت گردی آپریشن کیا اور پاکستان سرحد پار سے دہشت گردی کرنے والی قوتوں کو بھی شکست دیگا۔ پاکستان کی اقوام متحدہ میں مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے جنرل اسمبلی میں مباحثہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو سرحد پار سے دہشت گردی کے خطرے کا سامنا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے مکمل اتفاق رائے ہے۔ پاکستان نے دنیا میں سب سے بڑا انسداد دہشت گردی آپریشن کیا اور پاکستان سرحد پار سے دہشت گردی کرنے والی قوتوں کو بھی شکست دے گا۔ ملیحہ لودھی نے کہا سرحدی، قبائلی علاقوں کے ساتھ ساتھ شہری علاقوں میں بھی ٹارگٹڈ آپریشن کیا۔ آپریشن کے نتیجے میں دو سال سے ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں نمایاں کمی آئی۔ ملیحہ لودھی نے اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کی طرف سے تجویز کردہ دہشت گردی کے بارے میں بین الاقوامی کنونشن کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں دہشت گردی اور حق خودارادیت کیلئے جاری آزادی کی تحریکوں کے درمیان فرق کو واضح کیا جانا چاہئے۔
ٹرمپ پالیسی میں بھارتی کردار پر تشویش ہے‘ امریکہ دہشت گرد ٹھکانوں کی نشاندہی کرے‘ بمباری کریں گے: خواجہ آصف
Oct 07, 2017