مظہر حسین شیخ
پاکستان دنیا کے ایک ایسے خطے میں واقع ہے جو جغرافیائی طور پر ہمالیہ کی بلندی سے بحیرہ عرب کے ساحلوں تک دریا¶ں کو رواں رکھتا ہے۔سائنس کی ایجادات اور ترقی کے اس دور میں آج بھی قدرتی آفات پر قابو پانا آسان نہیں۔ آج بھی یہ سوال باقی ہے کہ سونامی،زلزلہ جیسی قدرتی آفات پر کس طرح قابو پایا جا سکتا ہے؟ آج سے 12برس قبل آزاد کشمیر میںآنے والے خوفناک زلزلے نے تباہی مچادی،سینکڑوں مکانات زمیں بوس ہو گئے ہزاروں لوگ لقمہ ئاجل بن گئے۔8 اکتوبر سے قبل 7 اکتوبر 2005ءکی شب کو جب لوگ کل کی آس میں سوئے ہوں گے تو انہیں کیا معلوم تھا کہ ان میں سے سینکڑوں مقامات صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے‘ جہاںکسی کی ماں نہیں تو کسی کی اولاد نہیں‘ کسی کا بھائی گیا تو کئی یتیم ہو گئے اور جو کروڑوں پتی تھے صرف ایک رات میں ”ککھ پتی“ہو گئے۔
8 اکتوبر 2005ءکا سورج طلوع ہوا تو قدرت نے یہ سارا دیکھا۔ اتنا لمبا چوڑا علاقہ ایک جھٹکے میں زمیں بوس ہو گیا۔ 8 اکتوبر کی صبح ملک کے بالائی حصوں میں شدت کا زلزلہ آیا۔ 7.6 کی شدت پر آنے والے اس زلزلے نے کئی شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گئے۔ اسلام آباد‘ لاہور اور دوسرے شہروں میں بھی جھٹکے محسوس کئے گئے۔ مگر آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات مظفر آباد اور صوبہ سرحد کے کئی علاقے کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے۔پہاڑوں نے اپنے ہی رہائشیوں کو نگل لیا جبکہ اسلام آباد میں دس منزلہ عمارت مارگلہ ٹاور میں موجود افراد جس میں بچے بوڑھے اورجوان بھی شامل تھے اسی ٹاور میں دب کر رہ گئے۔ یہ ایک ایسا سانحہ تھا کہ تاریخ کے وہ ابواب ذہنوں میں گم ہو گئے جس میں قدرتی آفات نے عذاب الٰہی کی شکل میں شہروں کو نابود کر دیا۔ زلزلے کا مرکز بالاکوٹ کے انتہائی قریب تھا۔ جو پہلے قراقرم کے قریب تھااور اب اسلام آباد سے صرف سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس زلزلے کا دورانیہ چھ اور سات منٹوں پر محیط ہے۔ جبکہ 1935ءمیں کوئٹہ میں آنے والے زلزلے کا دورانیہ دس منٹ تھا جبکہ ریکٹر سکیل پر دونوں کی شدت ایک ہی تھی۔تاریخ کی ورق گردانی کریں تو معلوم ہو گا کہ ماضی میں زلزلوں کی تاریخ سے اخذ کیا گیا تھا کہ اس علاقے میں بڑا زلزلہ آ سکتا ہے،یہ وہی علاقہ ہے جہاں 8 اکتوبر 2005ءکو زلزلہ آیا۔
زلزلہ کیا ہے؟ زلزلہ زمین کی اوپر والی سطح پر (Outermost Crust) کی شدید اور ہنگامی حرکت ہے جو کہ اچانک اس کی خاص پلیٹوں کے ٹوٹنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ دنیا کی تاریخ ان قدرتی آفات سے بھری پڑی ہے جن میں زلزلہ انتہائی دہشت ناک آفت ہے جس کی وجہ سے انسانی آبادیاں لاکھوں آبادیاں زمین بوس ہو گئیں۔ تقریباً 70 سال پہلے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ زمین مزید ٹھنڈی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے اس میں دراڑیں یا چٹاخ پڑ رہے ہیں۔ لیکن جدید نظریہ کے مطابق پلیٹوں کی خرابی ہے جس کو ماہر ارضیات نے بھی تسلیم کیا ہے۔ اس نظریے کے مطابق زمین کی بالائی پرت اندرونی طور پر مختلف پلیٹوں پر مشتمل ہے اور جب اس کے اندرونی کرے میں مادہ پگھلتا ہے (جسے میگما کہتے ہیں) تو زمین میں کرنٹ پیدا ہوتا ہے اور زمین کی پلیٹ متحرک ہو جاتی ہے۔ شدید صورت میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہو سکتی ہیں ۔ زلزلے کے واقعات اکثر ان علاقوں میں زیادہ ہوتے ہیں جو پلیٹس کے جوڑوں (Joints) پر واقع ہوں یا ان کے قریب تر ہوں زمین کی پلیٹوں میں خلل کی وجہ سے دراڑیں اور گہری کھائیاں بن جاتی ہیں اور شدید ارتعاش بھی پیدا ہوتا ہے اور زلزلہ آتا ہے۔ جو علاقہ اس جگہ یا میگما پوائنٹ کے اوپر ہو گا۔ وہ بہت جلد تباہی کا باعث بنے گا۔ یعنی وہاں زلزلہ کی شدت زیادہ ہو گی۔
زلزلے کے مرکز کو Epicenter ایپی سنٹر بھی کہتے ہیں۔ اب تک سائنسدانوں نے ان وجوہات کو دو بڑی اقسام میں تقسیم کیا ہے۔ ایک وجہ آتش فشاں پہاڑجبکہ دوسری بڑی وجہ ٹیکٹونک پلیٹس میں خرابی ہے یہ دونوں صورتیں میگما (Megma) کے پھٹنے سے پیدا ہوتی ہیں۔اس میگما کے پھٹنے سے تین قسم کی شدید لہریں بھی پیدا ہوتی ہیں۔پہلی قسم کی لہروں کو پرائمری لہریں (Primary Waves) یا پی ویوز کہتے ہیں۔ ان کی فریکوئنسی (Frequency) بہت زیادہ ہوتی ہے۔ جبکہ ویولینتھ (Wavelength) کم ہوتی ہے۔ یہ لہریں زمین کے سالڈ (Solid) اور لیکوئڈ (Liquid) حصے میں سے گزر جاتی ہیں اور زمین کی اندرونی تہہ کو متاثر کرتی ہیں۔ دوسری لہریں سیکنڈری ویوز (Secondary Waves) ہیں۔ یہ پرائمری لہروں سے آہستہ چلتی ہیں۔ ان کی رفتار زمین میں موجود چٹانوںکی وجہ سے تبدیل ہوتی رہتی ہے۔تیسری قسم کی لہریں ایل ویوز (L-Waves) ہیں جو کہ زمین کو شدید Vibrate کرتی ہیں۔ یہ ایپی سنٹر کے نزدیک پیدا ہوتی ہیں۔ یہی آخرکار زلزلے کا باعث بنتی ہیں۔ اگر سیکنڈری ویوز زمین کے لیکوئڈ میں داخل ہوں تو غیر مو¿ثر ثابت ہوتی ہیں۔کیونکہ یہ لیکوئڈ میں سے نہیں گزر سکتی جبکہ چٹانوں میں سے گزر جاتی ہیں اور ایل ویوز بن کر شدید جھٹکوں کے ساتھ ایپی سنٹر کو متحرک کرتی ہیں ۔ پاکستان کی تاریخ میں کوئٹہ کا زلزلہ نہایت خوفناک تھا جبکہ 8 اکتوبر 2005ءمیں پھر آزاد کشمیر اور شمالی علاقوں میں ایک لرزہ خیز زلزلہ آیا جس سے ہزاروں افراد جاں بحق اور لاکھوں زخمی اور بے گھر ہو گئے۔اس طرح کے کئی دہشت ناک زلزلے انسانی آبادیوں کو لقمہ اجل بنا چکے ہیں۔