زوال تعلیم یا ماڈرنائزیشن

Oct 07, 2018

۱۹۶۱ تک میٹرک کے امتحانات یونیورسٹی کی ذمہ داری تھی اس کے بعد یہ کام بورڈ کو منتقل ہو گیا۔میٹرک کا کورس بھی سب اسکولوں کا یکساں تھا اس لیئے معیاری اسکول کوشش کرتے تھے کہ بچوں کی تعلیمی استبداد پری میٹرک تک جتنی بڑھا سکیں بڑھادیں۔ اپنے اسکول کی مثال دیں کہ میٹرک کے کورس میں شیکسپیئر کی صرف پانچ کامیڈیز تھیں لیکن ہمارے اسکول میں میٹرک سے پہلے شیکسپیئر کی سات آٹھ ٹریجیڈیز بھی پڑھا دی جاتی تھیں ۔ اس سے ہم لو گوں کی انگریزی دوسرے اسکولوں کے طلبا سے کہیں زیادہ بہترہوتی تھی۔میٹرک سے پہلے ہی ہمیں کیریکٹر بلڈنگ کے نام پر اخلاقیات کا درس دیدیا گیا۔سوکس میں ہمیں صدارتی اور پارلیمنٹری فارم آف گورنمنٹ ،اسمبلی، قانون سازی اور آئین سے متعلق شد بد دیدی گئی ،اس شوق میں ہم نے مختصراً ورلڈ کونسٹیٹیوشن کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا انگلینڈ جو جمہوریت کی ماں ہے اس کے پاس تحریری آئین نہیں اس لیئے Un Written Constitution کہلاتا ہے۔ہم نے اسکول کے زمانے میں پروٹوکول ، سیکیورٹی اور ڈیکورم کا فرق جان لیا تھا۔۔اس کی وجہ بھی خوب رہی۔ اسکول کے چرچ کی سو سالہ اینیورسری کی  تقریب تھی۔شرکت کے لیئے ویٹی کن سٹی اٹلی سے ایک کارڈینل تشریف لائے۔ اس زمانے میں پوپ ویٹی کن سے باہر نہیں جاتے تھے۔اس لیئے کارڈینیل کو آنا پڑا کارڈینیل کی اہمیت یہ ہے کہ کسی بھی نئے پوپ کا انتخاب ۲۴ کارڈینیلز میں سے کیا جاتا ہے۔۔ ان کارڈینیلز کو ویٹیکن میں بند کردیا جاتا ہے جب تک یہ آپس میں سیکرٹ بیلٹنگ سے کسی ایک کو منتخب نہ کرلیں۔منتخب کرنے کے بعد اس عمارت کی چمنی سے سفید دھواں چھوڑ کر بتایا جاتا ہے کہ پوپ کا انتخاب ہو گیا ہے۔کارڈینیل کی آمد اور تقریب کے لیئے ہم لوگوں کو بریفنگ دی گئی ، ہم لوگوں سے مراد عام طلبا نہیں بلکہ جو اسکول بینڈ یا اسکائوٹس میںتھے۔بتایا گیا کہ کس طرح گارڈ آف آنر ہوگا۔کس طرح پریڈ کی سلامی ہو گی۔اس کے لیئے ریہرسل ہوتی رہیں۔ اس لیئے معلوم ہوا کہ کیسے چلا جاتا ہے۔ادھر ادھر نہیں دیکھنا ،غیر ضروری حرکا ت سے گریز وغیرہ۔یہ سب کچھ تو مہمان نے کرنا تھا لیکن ریہرس کرنے کے لیئے سب کو بتایا گیا۔اس ہی وقت ہمیں معلوم ہوا کہ کسے یور ایکسی لینسی کہا جاتا ہے کسے یور ہائینس یایور ہولی نیس۔کاڑدینیل صاحب آئے ۔ہم لوگوں کی معلومات میں کافی اضافہ کر گئے ۔اس وقت ایک لطیفہ ہو گیا۔۔ ہم سب قطار میں کھڑے تھے ہم لوگوں کا تعارف کرایا جا رہا تھا۔جب ہمارا نام ’فخرالدین‘ لینے میں کارڈینیل کو دشواری ہوئی تو ہم نے کہا ’’ یور ہولینیس اٹس جسٹ لائک ’’صلاح الدین‘‘۔کارڈینیل نے کمال ہوشیاری سے ضبط کرتے ہو ئے ہمارے سر پر ہاتھ رکھا اور بولے’’ مائی چائلڈ۔۔ فرگیٹ دا پاسٹ۔لک فورورڈ‘‘آج ۵۷ برس بعد ہم غور کرتے ہیں تو معیار تعلیم پر ہنسی آتی ہے کہاں ہم جیسا اسکول کا طالب علم اور کہاںآج کا آکسفورڈ سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کرنے والا سیاستدان جسے یہ نہیں معلوم کے گارڈ آف آنرز میں ادھر ادھر نہیں دیکھتے نہ انگوٹھی سے کھیلتے ہیں ۔جسے یہ نہیں معلوم کہ اپنے کم تر عہدے دار کے دائیں ہاتھ پر کھڑا ہو نا چاہیئے۔جسے یہ نہیں معلوم کہ پھول چڑھانے کے بعد تین قدم پیچھے ہٹ کر فاتحہ خوانی کرنی ہوتی ہے جسے یہ نہیں معلوم کہ خط لکھتے وقت مکتوب الیہ کو کیسے مخاطب کیا جائے۔ جسے سر،، ڈیئرسر یا مائی ڈیئر سر کا فرق نہیں معلوم تو اسے کیا معلوم ہوگا کہ یورز ٹرولی، یورز سنسرلی اور یورز فیتھ فلی میں کیا فرق ہے۔یہ وہ اشارتی علامات ہیں جو بتاتی ہیں کہ آپ کی نظر میں مکتوب الیہ کی کیاقدر و منزلت ہے۔۔خط فارمل ہے یا انفارمل۔کسی سے ملنے میں مصافحے میںگرمجوشی یا سرد مہری بھی ضروری ہوتی ہے۔خم ہونا ہے یا نہیں یہ بھی تعلقات پر منحصر ہوتا ہے۔کوئی بھی حرکت کسی علت کے بغیر نہیں ہوتی۔آفیشل لینگویج میں الفاظ کا چنائو بہت اہمیت رکھتا ہے۔دو الفاظ ہم معنی ہو سکتے ہیں لیکن ان کا ستعمال کب اور کہاں اہمیت رکھتا ہے۔ بہر حال یہ ہمارے خیالات ہیں ہوسکتا ہے فرسودہ ہو گئے ہوں ۔۔نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں۔۔پچاس سال پہلے جو چیزیں معیوب تھیں اب فیشن میں شمار ہوتی ہیں ۔ ہمیں یاد ہے پہلے راستے میں چلتے ہوئے کھانا بد تہذیبی تھی اب ماڈرن ہونے کی نشانی ہے۔چند سال پہلے ملکہ برطانیہ سعودی شاہ کے سامنے پورا عبایا اور اسکارف لیتی تھی اب ٹرمپ کی بیٹی مغربی لباس میں شاہ سے ہاتھ ملا تی ہے تو کوئی بات نہیںانگریز نے ہماری تہذیب پر قدغن لگانے کے لیئے ہمارے اقدار کی منافی چیزوں کو ماڈرن ہونے کا درجہ دیدیا ہے تو بھارت نے ہمارے کلچر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے جن جن باتوں کی اسلام میں ممانعت ہے وہی اب ماڈرنائزیشن کا حصہ ہیں۔

مزیدخبریں