رولا رپا‘ لارا لپا حکومت

جب سے پی ٹی آئی کی حکومت یعنی ’’تبدیلی‘‘ آئی ہے‘ محسوس ہو رہا ہے کہ ملک (خدانخواستہ) لاوارث ہو گیا ہے۔ حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آرہی۔ جو لوگ اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہیں‘ اس قدر ناتجربہ کار اور پارلیمانی آداب سے اس درجہ بے بہرہ ہیں کہ وہ ابھی تک خود کو ’’کنٹینر‘‘پر کھڑا محسوس کررہے ہیں۔ خارجہ پالیسی کے معاملات ہوں‘ معیشت کے مسائل ہوں یا قانون کی عملداری کا مرحلہ ہو‘ حکومت کا ہر قدم اُلٹا پڑ رہا ہے۔ پھر سب سے بڑھ کر پی ٹی آئی نے اپنی انتخابی مہم جس عنوان کے تحت چلائی وہ کرپشن کا خاتمہ اور مہنگائی و بیروزگاری سے نجات ہے۔ جہاں تک کرپشن کا معاملہ ہے تو پی ٹی آئی کے بہت سے رہنمائوں سمیت اس کی حلیف جماعتوں کے بہت سے سیاستدانوں کے مقدمات نیب میں زیرتفتیش ہیں۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں جبکہ (ن) لیگ کی حکومت کے دور میں ہی پی ٹی آئی‘ (ن) لیگ کو یہ طعنے دیتی رہی ہے کہ جس پر بھی کرپشن کا مقدمہ ہو‘ اسے ’’اخلاقی‘‘ طورپر عہدے سے استعفیٰ دیدینا چاہئے‘ لیکن پی ٹی آئی کا بھی کرپشن پر قانون کی عملداری کا معیار دوسری پارٹیوں کی طرح دوغلا ثابت ہو رہا ہے۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں لہٰذا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ ’’تبدیلی‘‘ آگئی ہے۔ عمران خان نے وزارت سبھالتے ہی کہا کہ وہ پولیس کو غیر سیاسی بنائیں گے جیسے کے پی کے میں بنایا۔ اگلے ہی روز ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے والا کھیل شروع ہو گیا۔ کدھر گئی تبدیلی؟… اور سب سے بڑھ کر غریبوں کو سبز باغ دکھانے والی پارٹی اب غریبوں کے دن بھی سیاہ کرنے جا رہی ہے۔ بجلی‘ گیس‘ پٹرول سے لیکر آٹا‘ دال‘ گھی‘ چاول اور استعمال کی ہر چیز پر ٹیکس بڑھا دیئے گئے ہیں اور غریب کو دو وقت کی روٹی سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔ موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں کے چالانوں کی رقم ہوشربا حد تک بڑھا دی گئی ہے۔ جس بے چارے موٹرسائیکل سوار کی پورے مہینے کی تنخواہ پندرہ بیس ہزار روپے ہے‘ اسے اگر مہینے میں دو ہزار کا ایک چالان بھی ٹھک جاتا ہے تو وہ غریب کیا کرے گا۔ اسی طرح گاڑیوں میں پچاس فیصد متوسط اور سفید پوش طبقہ سوار ہوتا ہے۔ جن میں زیادہ تعداد سرکاری ملازمین کی ہے جن کی تنخواہوں کے بارے میں حکومت کو بتانا ایسا ہی ہے جیسے کوئی عمران خان کو بتائے کہ ’’آپ کا نام عمران خان ہے۔‘‘ اگر ایسے کسی ڈرائیور کو ذرا سی غلطی پر دس ہزار روپے کا جرمانہ ٹھوک دیا جائے تو اسے دل کے دورے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی بہت بڑی حرکت ہے‘ لیکن چالان کی جو رقم گزشتہ حکومت نے مقرر کی ہوئی ہے‘ وہ لوگوں کی جیب دیکھ کر کی گئی ہے۔ یوں اندھادھند اضافے سے لوگ بھوکوں مر جائیں گے۔
فنکار دوطرح کے ہوتے ہیں۔ ایک سٹوڈیو کے باہر ہوتے ہیں اور دوسرے سٹیج کے دھنی ہوتے ہیں‘ لیکن ہزاروں نہیں‘ لاکھوں میں کوئی ایک ایسا فنکار ہوتا ہے جو سٹوڈیو اور سٹیج دونوں جگہوں پر کامیاب ہوتا ہے اور اسی کا سکہ پوری دنیا میں چلتا ہے۔ اس کی قریبی مثال لتا منگیشکر اور مہدی حسن سے دی جا سکتی ہے۔ لتا جی صرف پلے بیک سنگر ہیں‘ وہ سٹوڈیو کی ملکہ ہیں‘ لیکن مہدی حسن خان صاحب سٹوڈیو اور سٹیج دونوں کے شہنشاہ تھے۔
عمران خان اور ان کی ٹیم کے اکثر ’’فنکار‘‘ صرف کنٹینر کے سیاستدان ہیں۔ پارلیمانی سیاست ان کے بس کا روگ نہیں‘ لیکن نوازشریف پارلیمنٹ اور کنٹینر‘ دونوں کا بادشاہ ہے۔ عمران خان کو پارلیمانی سیاست کے گر میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری سے سیکھنے چاہئیں اور اب کنٹینر سے نیچے آجانا چاہئے۔ ورنہ لوگ کہیں گے؎
زینہ صبا کا ڈھونڈتی ہے اپنی مشت خاک
بام بلند یار کا ہے آستانہ کیا

ای پیپر دی نیشن