پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اگر حکومت جمہوری، معاشی اور انسانی حقوق پر حملہ کرتی رہی اور جمہوری نظام کو چلنے نہیں دے گی تو پیپلز پارٹی بھی مولانا فضل الرحمٰن کی طرح انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے دھرنا دے گی۔
راولپنڈی میں اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ڈاکٹرز کے ساتھ ساتھ عدالتی حکم کے باوجود سابق صدر آصف علی زرداری کو طبی سہولیات فراہم نہیں کی جا رہیں۔انہوں نے کہا کہ 'قومی احتساب بیورو (نیب) کے اپنے ڈاکٹرز کہہ رہے تھے کہ زرداری صاحب کو طبی سہولیات کی فراہمی اور علاج کرنا ضروری ہے لیکن اس وقت بھی عمل نہیں کیا گیا اور ان کی اڈیالہ جیل منتقلی کے بعد حکومت کے اپنے ڈاکٹرز نے بھی کہا کہ زرداری صاحب کو طبی سہولیات دی جائیں لیکن آج تک ایسا نہیں کیا گیا'۔
انہوں نے کہا کہ ہم متعدد بار عدالتوں کے پاس یہ اعتراضات لے کر گئے اور عدالت نے بھی یہی موقف اختیار کیا کہ اگر ڈاکٹرز کہتے ہیں تو زرداری صاحب کو طبی سہولیات دی جائیں اور ان کا علاج کرایا جائے لیکن افسوس کی بات ہے کہ عدالتی حکم اور ڈاکٹرز کی تین، تین رپورٹس کے باوجود یہ حکومت انسانی حقوق پر یقین نہیں رکھتی جو ہر قیدی کا بنیادی حق ہے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ کئی ماہ سے قید میں ہونے کے باوجود زرداری صاحب کو انسولین اور دوائیاں رکھنے کے لیے فرج کی سہولت تک نہیں دی گئی، یہ ہے نئے پاکستان کی انسانیت، جس میں زرداری صاحب کو ریاستی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت کا پائلٹ پکڑا جاتا ہے تو اسے طبی سہولیات فراہم کرنے کے بعد تین دن کے اندر اندر گھر واپس بھیج دیا جاتا ہے لیکن اپنے ملک کے جمہوری طریقے سے منتخب سابق صدر پر اتنے الزامات عائد کرنے کے باوجود آپ اس پر جرم ثابت نہیں کر سکے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ صدر زرداری بہادر آدمی ہیں اور وہ اس طرح کے حکومتی ہتھکنڈوں سے تنگ آ کر ہرگز اپنے اصولوں اور نظریے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
انہوں نے ڈپٹی اسپیکر کے حوالے سے سوال پر کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے آیا ہوا فیصلہ سب کے سامنے ہے، ہمارے منتخب اسپیکر کو ہٹا کر پھر دوبارہ منتخب کیا گیا، ایسا نظام بھی اس ملک میں چلتا ہے لیکن اب دیکھنا ہے کہ عدالت کی جانب سے آخری فیصلہ کیا ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سلیکٹڈ لوگ الیکشن سے ڈرتے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ اگر بیگ کھلے تو ایک بھی سلیکٹڈ نہیں رہے گا، عمران خان کا بھی یہی مطالبہ تھا کہ بیگز کھولیں لیکن ایک سال گزر چکا ہے اور اس سلسلے میں بنائی گئی کمیٹی نے ایک بھی اجلاس طلب نہیں کیا، آخر یہ کس چیز سے ڈرتے ہیں؟
پی پی پی کے چیئرمین نے کہا کہ ابھی ہمارے ڈپٹی اسپیکر کو عدلیہ کی جانب سے کچھ ریلیف ملا ہے لیکن عدالت کے سامنے یہ کیس آئے گا تو ان کو بھی نظر آ جائے گا کہ سلیکٹڈ بالآخر سلیکٹڈ ہی ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ میری مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور عوامی نیشنل پارٹی سے ملاقاتیں ہوئی ہیں اور آگے چل کر دیگر جماعتوں سے بھی ملاقات ہوگی، ہمارا واضح موقف ہے کہ ہم جمہوریت چاہتے ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی جمہوریت کی بحالی اور آزادی صحافت کا مطالبہ کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم مولانا صاحب کی ہر طرح کی سیاسی اور اخلاقی حمایت کریں گے، ہماری اپنی جدوجہد بھی جاری ہے اور ہم اپنی بات پر قائم ہیں کہ اس سال کے اختتام تک عمران خان کو گھر جانا ہو گا۔
انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن کی طرح انتہائی اقدام کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت تحریک انصاف کی حکومت، سسٹم، جمہوریت اور پارلیمانی وفاقی اسلامی جمہوری نظام کو نہیں چلنے دے رہی، اگر پی ٹی آئی خود پارلیمان کو کوئی حیثیت نہیں دیتی، پارلیمان سے ایک بل تک پاس نہیں کر سکتی، اپنے مخالفین کو جیل میں رکھ کر قانون سازی کے لیے پارلیمانی سیشن میں نہیں آنے دیں گے اور ان کی غیر موجودگی میں بجٹ بھی پاس کریں گے تو پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس بھی آپشن محدود ہوتے جا رہے ہیں اور پھر ہم بھی مولانا فضل الرحمٰن کی طرح انتہائی اقدام اٹھائیں۔
دھرنے کے حوالے سے بلاول کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ اگر دھرنے کی سیاست سے آپ حکومت کو گھر بھیجیں گے تو اس سے سسٹم کو نقصان پہنچتا ہے لیکن حکومت جمہوری، معاشی اور انسانی حقوق پر حملہ کرتی رہے گی تو ہم بھی اسلام آباد میں بیٹھنے پر مجبور ہو جائیں گے اور ہم بھی دھرنا کریں گے اور انہیں گھر بھیجیں گے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے تو خود کہا تھا کہ وہ دھرنے کے لیے کنٹینر بھی دیں گے اور کھانا بھی بھیجیں گے، تو پھر اب کیا اعتراض ہے؟ خان صاحب کو مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے کے لیے کنٹینر بھی دینا چاہیے اور کھانا بھی بھیجنا چاہیے اور اگر وہ نہیں بھیجیں گے تو سب کے سامنے جھوٹے سمجھے جائیں گے۔