ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی خرافات اور رسومات کیساتھ ساتھ باہمی محبت اور اخلاص کا بھی جنازہ نکلتا جارہا ہے چاہیے تو یہ تھا کہ ان غلط خرافات اور رسومات کا قلع قمع کیا جاتا لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ان غلط خرافات و رسومات میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے بہت سے عزیزوں ، قریبی رشتوں ، اور تعلقات سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے بلکہ اب تو عیب سمجھا جاتا ہے اور شرکت نہ کرنے پر نفرت کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے اب اگر ان رسومات میں شریک ہوں تو غلط رسومات میں شرکت کا مرتکب بنتا ہے اور اگر شریک نہ ہوں تو ناراضگی اور قطع تعلقی کا سبب بنتا ہے اور اگر سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ یہ رسومات ٹھیک نہیں ہیں تو آبائو اجداد سے چلے آنے اور ، رواج ، ہونے کا طعنہ دے کر خاموش کرادیا جاتا ہے
یہی وجہ ہے کہ آج باہمی الفت ، محبت ، اور پیار کا بْحران بڑھتا جارہاہے گزشہ روز ایک عزیز کا انتقال ہوا تھا گھر میں بیٹھے تھے کہ کال آگی والد صاحب کال سننے کے بعد فرمانے لگے کہ جس عزیز کا انتقال ہوا تھا انہی کے ہاں سے پیغام ہے کہ اس ہفتے چالیس دن پورے ہورہے ہیں اور وہ چہلم کرنا چاہ رہے ہیں اسی رسم میں شرکت کی دعوت دی ہے میں نے والدہ صاحبہ سے کہا کہ امی جان یہ تو جائز ہی نہیں ہے لہذا ہم شرکت نہیں کریں گے تو والدہ صاحبہ فرمانے لگی بیٹا ہمیں بھی معلوم ہے کہ یہ جائز نہیں ہے لیکن مجبوری ہے اگر شرکت نہ کی تو ہمیشہ کے لیے قطع تعلقی ہوجائے گی اور یہ بھی کہا کہ ہمارا ارادہ ہے کہ اس مرتبہ آپکو بھیج دیتے ہیں میں نے کہا ٹھیک ہے میں جامعہ سے سیدھا ادھر ہی چلا جائوں گا تو والدہ صاحبہ کہنے لگیں کہ کچھ سامان بھی ہے وہ بھی لیکر جانا ہے میں نے حیرانگی میں پوچھا کیسا سامان ؟والدہ صاحبہ سے جواب سننا تھا کہ آنکھیں دنگ رہ گئیں ، طبیعت مچل گئی ، اور دل تڑپ اٹھا اور بے اختیار زبان سے یہ الفاظ نکل پڑے"کہ میت کی رسم پر جانا ہے یا بیوہ کی دوسری شادی پر جانا ہے"یقیناً آپ سوچ رہے ہونگے کہ ایسا کیسا جواب تھا واقعی ہی ایسا جواب تھا جو آپکو بھی حیرت میں ڈال دے گا فرمایا کہ بیوہ کے بھائیوں کے لیے یہ بات فرض کا درجہ رکھتی ہے کہ وہ بیوہ کے لیے اس رسم پر، سونے کے کانٹے، چاندی کے کنگن، پورے خاندان کے کپڑے بمع مردہ شوہر کے لیکر جائیں اور اس رسم پر پکنے والی دیگوں کا خرچہ بھی برداشت کریں المیہ یہ ہے کہ بیوہ کے سارے بھائی مزدور ہیں کوئی بھی صاحب حیثیت نہیں ہے یقیناً اب دو کام ہونگے ایک تو وہ شرکت نہیں کریں گے اس صورت میں بیوہ بہن ہمیشہ کے لیے قطع تعلقی کرلے گی اور پچھلے تمام احسانات کو پس پشت ڈال کر انکے عیوب کو اچھالنا شروع کردے گی اور جو اہل محلہ طعن و تشنیع کریں گے اَلامان والحفیظ
اور دوسرا کسی عزیز سے قرض کا مطالبہ کریں گیاور وسائل نہ ہونے کی وجہ سے قرض نہ لوٹانے پر بار باراس عزیز کی نظروں کا نشانہ بنیں گے اور قرض ادا نہ کرنے پر باہمی الفت، اور محبت نفرتوں میں بدلتی ہوئی دشمنی کی شکل اختیار کرلے گی الغرض دونوں صورتوں میں باہمی الفت، اور محبت کا جنازہ نکلتا ہوا سامنے آئیگا اور اس ساری خرابی ، اور جھگڑے کی وجہ یہ غلط رسومات بنتی ہیں خدارا ان غلط خرافات اور رسومات کا قلع قمع کریں تاکہ باہمی الفت، محبت، اور پیار برقرار رہ سکے۔اللّٰہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللّٰہ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور اپنے پیارے حبیبؐ کی سنتوں کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین