آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کی غداری کے مقدمے میں نامزدگی باعث شرم اور قابل مذمت ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم کو سیاسی مخالفت کی وجہ سے غداری کے مقدمے میں نامزد کر دیا جائے۔ اس مقدمے کا اندراج یقینی طور پر حکومت کے لیے سوالیہ نشان ہے۔ اس اقدام سے ناصرف بین الاقوامی سطح پر جگ ہنسائی ہو گی اس کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کے دل بھی دکھے ہوں گے۔ یہ مقدمہ کشمیر کے ساتھ جڑے تمام ارادوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچائے گا۔ راجہ فاروق حیدر کے سیاسی خیالات کچھ بھی ہوں ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو پاکستان میں ان کے خلاف غداری کا مقدمہ درج ہونا باعث شرم ہے، باعث تشویش ہے۔ کیا حکومت نہیں جانتی کہ اس مقدمے کے بعد آزاد کشمیر میں رہنے والے کیا سوالات اٹھا سکتے ہیں وہ کیسے برداشت کریں گے کہ ان کے وزیراعظم کو غداری کے مقدمے میں شامل کر لیا جائے۔ مقبوضہ کشمیر کے لاکھوں مسلمانوں کو اس مقدمے سے کیا پیغام جائے گا۔ حکومت ہوش کے ناخن لے سیاسی رواداری کا مظاہرہ کرے۔ اس کیس میں وزیراعظم عمران خان کو ذاتی دلچسپی لینے کی ضرورت ہے بہتر ہے کہ وہ وزیر اعظم آزاد کشمیر کو فون کریں۔ عمران خان اس معاملے میں اپنے وزیروں، مشیروں اور ترجمانوں پر ہرگز اکتفا نہ کریں جس انداز میں راجہ فاروق حیدر نے ردعمل دیا ہے اس کے بعد عمران خان کو ذاتی حیثیت میں ان سے رابطے سے اس آگ کو بجھایا جا سکتا ہے۔ "راجہ فاروق حیدر کہتے ہیں کہ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی خوش ہو گا کہ پورا پاکستان ہی اس کا ایجنٹ بن گیا ہے۔ بطور ایک بھارت مخالف کشمیری اب انہیں اپنے مستقبل کی فکر لگ گئی ہے۔" کیا حکومت کے زبان درازوں نے ان الفاظ پر غور کیا ہے۔ کیا ان کے پاس ایسے سنجیدہ اور حساس معاملات پر غور و فکر کے لیے وقت ہے۔ ہر وقت غیر ضروری بیان بازی میں مصروف رہنے والی وزراء ہی دراصل عمران خان کی ساکھ اور اس کی حقیقی فکر کو تباہ کر رہے ہیں۔ عمران خان سخت گیر، مضبوط موقف کے حوالے سے ضرور پہچانے جاتے ہیں لیکن انتقام ان کے مزاج کا حصہ نہیں ہے۔ خیالات اور سوچ میں اختلاف بڑی بات نہیں ہے اور جس سے اختلاف پیدا ہو یا تعلقات بگڑ جائیں وہ زیادہ سے زیادہ راستہ بدل لیتے ہیں لیکن انتقام کی طرف نہیں جاتے اس لیے ان مقدمات میں عمران خان کو شامل کرنا یا یہ کہنا کہ سب کچھ ان کی خواہش ہر ہو رہا ہے ایسا ہرگز نہیں ہے لیکن اس آگے کو بجھانا ان کے بس میں ہے اور اس کے لیے انہیں دل بڑا کرنا ہو گا۔ ایک منتخب وزیراعظم، ایک محب وطن پاکستانی، ایک تعمیری سوچ رکھنے والے پاکستانی کی حیثیت سے انہیں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اور اپنے وزراء پر بھی سختی کرنا ہو گی۔آزاد کشمیر میں ایسے بیانات بین الاقوامی سطح مسئلہ کشمیر کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گے۔ راجہ فاروق حیدر کے جذبات اور غصہ جائز ہے ہمیں ان کے ساتھ ہمدردی بھی ہے ان کی حب الوطنی اور کشمیر کی تحریک آزادی سے لگاؤ کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔
رانا ثنا اللہ کہتے ہیں کہ "شیخ رشید اپنی اوقات میں رہیں اور اپنی حد پار نہ کریں ورنہ اْنہیں یہ معاملہ مہنگا پڑے گا"۔ صرف شیخ رشید ہی نہیں رہنا تو سب کو اپنی اوقات میں چاہیے معاملات تب ہی بگڑتے ہیں جب ہم اپنی اوقات بھول جاتے ہیں۔ بہرحال رانا ثناء اللہ کی شیخ رشید کو وارننگ خوش آئند ہے لیکن وہ ذہن میں رکھیں کہ شیخ رشید نے باز نہیں آنا انہیں روکنے کے لیے کچھ غیر معمولی کرنا پڑے گا۔ "فتنہ شیخ" روکنے کے لیے رانا ثناء اللہ کو اور کچھ نہیں تو کم از کم چھوٹا شیخ رشید ضرور بننا پڑے گا جب تک وزیر ریلوے کی ٹرین کا کانٹا نہ کھینچا گیا اس وقت تک زبان باہر نہیں آئے گی۔ کانٹا کھینچنا اور پوری قوت سے ثبوتوں کے ساتھ کھینچنا ضروری ہے۔ شیخ رشید اور ان جیسے چند اور ترجمانوں نے ہر وقت حکومت کے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔ یہ صرف اپوزیشن ہی نہیں حکومت کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔ یہ نفرتوں کے بیوپاری ہیں اگر حکومت انہیں روکنے میں ناکام ہے تو یہ ذمہ داری پھر رانا ثناء اللہ کو ضرور اٹھانی چاہیے ویسے بھی وہ "مکو ٹھپنے" کا خاصہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے حکومتی وزراء کو سبق سکھا کر وہ نئی مثال بھی قائم کر سکتے ہیں۔ ان کے اس عمل سے جمہوریت کو بھی فائدہ ہو گا اور جمہوری روایات کو بھی فروغ ملے گا۔ رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ "نوازشریف وطن واپس آئے تو شیخ رشید پارٹی میں واپسی کے لیے ان کے پیچھے پیچھے پھرتے رہے" یہ بات بھی ٹھیک ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شیخ رشید ن لیگ میں جانا چاہتے تھے لیکن انہیں گھاس نہیں ڈالی گئی انہیں نظر انداز کیے جانے کا بھی غم ہے۔ آج شیخ رشید وزارت میں ہیں تو اس طاقت اور میاں نواز شریف کے طاقت میں نہ ہونے کا بھرپور انداز میں فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ مریم نواز کے بارے بولتے ہوئے انہیں اور بھی زیادہ محتاط ہونا چاہیے۔ حالات کچھ بھی ہوں کم از کم خواتین کے بارے بات کرتے ہوئے معاشرتی اقدار کا ضرور خیال رکھا جانا چاہیے۔ رانا صاحب شیخ رشید کا پیچھا کریں اور جہاں انہیں پہنچنا چاہیے وہاں تک پہنچائیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ شیخ رشید کی زبان اور انداز بیان کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے تو ن لیگ کی طرف سے مریم اورنگزیب کے بیانات بھی ایسے ہوتے ہیں کہ ایک سیاسی کارکن بہت کچھ کہنا چاہتا ہے لیکن خاموش رہتا ہے۔ ایک ترجمان کے لیے الفاظ کا چناؤ بھی اہم ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ غلط بیانی سے بھی گریز کرنا چاہیے۔
میاں نواز شریف کی مسلم لیگ گوجرانولہ میں احتجاجی ریلی نکال رہی ہے اور اس ریلی کے جواب میں ایک ریلی ن لیگ کے ایک لوٹے نے بھی نکالنے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف بھی اس ریلی کی حمایت کر رہی ہے۔ حکمران جماعت کی طرف سے اس ریلی کی حمایت نہایت نامناسب، جمہوری روح اور اقدار کے منافی ہے۔ گوجرانولہ سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے ایک لوٹے مسلسل وزیر اعلیٰ پنجاب سے رابطے میں تھے چونکہ گوجرانولہ میں ن لیگ کی مقامی قیادت میں انہیں اہمیت نہیں دی جاتی تھی کچھ اور مسائل بھی ہوں گے لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ ان کا رابطہ نیا نیا ہے۔ پی ٹی آئی کی اس حمایت سے ایک پیغام یہ جاتا ہے کہ حکمراں جماعت لوٹا کریسی کی حمایت بھی کرتی ہے جبکہ چیئرمین پی ٹی آئی ہمیشہ سے ایسے اقدامات اور فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں اب وہ وزیراعظم ہیں اور ان کی موجودگی میں مخالف سیاسی جماعت کے اراکین صوبائی اسمبلی اگر لوٹا بننے کی کوشش کر رہے ہیں تو تحریک انصاف ان کے لیے بازوں کیوں کھولے کھڑی ہے۔ لوٹوں کی سیاست سے نوٹوں کی باتیں نکلتی ہیں نوٹوں کی باتوں سے ووٹوں کی خرید و فروخت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ایسے فیصلوں سے ہم خود کو سیاسی طور پر ایک مرتبہ پھر چھانگا مانگا کی سیاست میں دیکھ رہے ہیں کل ہی سینیٹر فیصل جاوید ن لیگ کو کہیں چھانگا مانگا کی سیاست کا طعنہ دے رہے تھے شاید گوجرانولہ کی لوٹا ریلی اور ان کی جماعت کی اس ریلی کی حمایت کی خبر ان کی نظر سے نہیں گذری۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس ریلی کو وطن کی محبت سے جوڑنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے کیا ان لوٹوں کو علم ہے کہ وزیراعظم آزاد کشمیر پر بھی غداری کا مقدمہ درج ہوا ہے کیا یہ جانتے ہیں کہ اس مقدمے کے کیا نقصانات ہو سکتے ہیں۔
اس ملک کے عوام کی بدقسمتی ہے کہ تیس پینتیس سال تک ملک کو چونا لگانے والوں نے اس کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں آج بھی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اپنے حصے کا حلوہ کھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ کم و بیش تین دہائیوں میں ملک میں وسیع پیمانے پر ہونے والی لوٹ کھسوٹ نے ملک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ آج ملک جس حال میں پہنچ چکا ہے یہ ان تین دہائیوں کی کقٹ مار کا ہی نتیجہ ہے۔ میاں نواز شریف کو ان دنوں نظریاتی دورہ پڑا ہوا ہے چونکہ ان کے اپنے دیرینہ دوستوں سے راستے جدا ہو چکے ہیں اور وہ اقتدار سے بھی باہر ہیں اقتدار سے دوری نے انہیں اس قابل بھی نہیں چھوڑا کہ وہ تقریر کرتے ہوئے جان سکیں کہ کیا کہہ رہے ہیں کیا بول رہے ہیں نہیں سب کچھ یاد ہے کہ ایٹم بم کس نے بنایا، میزائل کس نے بنائے، جہاز کس نے خریدے، ٹینک کس نے بنائے انہیں سب کچھ یاد ہے لیکن یہ نہیں یاد کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کیسے بن گئے، وہ یہ نہیں جانتے کہ منی لانڈرنگ کیسے ہوتی رہی، وہ یہ نہیں جانتے کہ کیسے غیر قانونی طور پر چند خاندانوں کے کاروبار اربوں کھربوں میں پہنچ گئے وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ کیسے اقتدار کو ذاتی کاروبار کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ کیسے ملک کو سیاسی طور پر آلودہ کیا گیا، میرٹ کا قتلِ عام کیا گیا، قواعد و ضوابط اور میرٹ کی دھجیاں بکھیری گئیں، کیسے ملک کے اعلیٰ دماغوں کی حوصلہ شکنی کی گئی، کیسے اپنے بنے بنائے اداروں کو غیر ملکیوں کے حوالے کیا گیا، اپنے اداروں کا بیڑہ غرق کر کے غیر ملکیوں کے لیے راستہ کھولا گیا۔ اپنی مارکیٹ کو تباہ کر کے غیروں کو موقع دیا گیا۔ یہ سب کسی اور نے نہیں کیا انہی حکمرانوں نے کیا ہے جو سڑکوں پر ہیں یا سڑکوں پر آنے والے ہیں جیلوں میں یا جیلوں میں جانے والے ہیں یا جیلوں سے باہر آنے والے ہیں۔ قوم کی کسی قسم کی تربیت نہیں کی گئی، آج ہر کوئی جنسی درندہ ہے، چور ہے، لٹیرا ہے، جھوٹا ہے، بدنیت ہے، بددیانت ہے، کام چور ہے، مصلحت پسند ہے۔ نا قوم کی تربیت کی نا ملک کی خدمت کی سب لوٹ کھسوث میں مصروف رہے اور آج قرضوں کا جال ہے۔ خود بدنیت تھے بدنیتوں کو سپورٹ کرتے رہے آج حق سچ، امانت دیانت کا فقدان ہے۔
یہ درست ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف بھی اب تک ڈیلیور کرنے میں ناکام رہی ہے لیکن یہ کہنا بھی غلط ہے کہ تباہی کے ذمہ دار موجودہ حکمران ہیں۔ ان کی ناتجربہ کاری، نااہلی اور غلط فیصلوں پر تنقید و اعتراض کیا جا سکتا ہے لیکن تمام تر ناکامیوں کے باوجود انکی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ وزیراعظم عمران خان ٹیم میں تبدیلی کریں اچھے دماغ اور بہتر فیصلے کرنے والے موجود ہیں بہتر افراد کی کابینہ میں شمولیت سے نیا پاکستان بن سکتا ہے۔ اس ملک سے وفاداری ہمارے خون میں شامل ہے لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ کے نام پر بننے والے اس ملک کے ساتھ غداری یا بے وفائی کرنے والے ہر شخص کو اللہ نیست و نابود کرے اور اس ملک کی خدمت کرنے والوں کے لیے راستے پیدا فرمائے۔ ان شاء اللہ اس ملک سے اسلام کا جھنڈا سر بلند ہو گا۔ روشنی یہیں سے نکلے گی، ایمان کو تازہ کرنے والی ہوائیں یہیں سے چلیں گی۔ یہ ایمان افروز ہوائیں دنیا پر چھا جائیں گی۔ ان شاء اللہ ملک تاقیامت قائم و دائم رہے گا یہ ملک جیسا انیس سو سینتالیس میں تھا دوبارہ ویسا ہو گا۔