اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ کے لارجر بنچ نے کلبھوشن یادیو کیس میں عالمی عدالت انصاف کے فیصلہ پر موثر عمل درآمد سے متعلق قانونی نکات پر اٹارنی جنرل سے معاونت طلب کرلی۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل لارجر بنچ میں سماعت کے دوران جبکہ دو سنیئر وکلاء مخدوم علی خان اور عابد حسن منٹو نے عدالتی معاونت سے معذرت کرلی جن کی طرف سے جواب عدالت میں جمع کرایا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ عدالت اپنے طور پر کلبھوشن کے لیے وکیل مقرر کر سکتی ہے؟۔ آپ اس نکتے پر بھی عدالت کی معاونت کریں کہ بھارت یا کلبھوشن کی مرضی کے بغیر وکیل مقررکرنے کے کیا اثرات ہوں گے؟۔ کیا یہ موثر نظر ثانی کے قانونی تقاضے پورے کرے گا؟۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل کیا پروگریس ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ 4 ستمبر 2020 کو بھارتی حکومت کو عدالتی احکامات سے آگاہ کیا، 7 ستمبر 2020 کو بھارتی حکومت نے اعتراضات کے ساتھ جواب دیا ، بھارتی حکومت نے 4 اعتراضات لگائے، بھارت کے جواب سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت کلبھوشن کے حوالے سے عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بننا چاہتا، بھارت کلبھوشن یادیو کیس نہیں لڑنا چاہتا اور وہ سیاسی بیان بازی کررہا ہے، کلبھوشن یادیو کو عدالتی احکامات سے آگاہ کیا تھا مگر انہوں نے انکار کیا، بھارت اور کلبھوشن یادیوکے انکار پر تیسری پارٹی انکا کیس لڑ سکتی ہے، بھارت تاثر دینا چاہتا ہے کہ پاکستان عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کر رہا، کلبھوشن کے انکار کے بعد کوئی بھی اس کی اجازت کے بغیر اس کی نمائندگی نہیں کر سکتا، عدالت کلبھوشن کیلئے عدالتی نمائندہ مقررکر سکتی ہے‘ استدعا ہے کہ عدالت کلبھوشن یادیو کیلئے قانونی نمائندہ مقررکرے، بین الاقوامی عدالت انصاف کے احکامات کی پاسداری ضروری ہے، ہم کلبھوشن یادیو کو فئیر ٹرائل کا موقع دینا چاہتے ہیں، جب بھارت اور کلبھوشن یادیو کیس نہیں لڑنا چاہتے پھر وفاقی حکومت کیس لڑ سکتی ہے، اس عدالت کو یہ دیکھنا ہے کہ کلبھوشن کو کونسلر رسائی مل جاتی تو اس کی سزا پر کیا اثرات مرتب ہوتے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے بھارت کو کافی موقع فراہم کر دیئے ہیں، بھارت کی جانب سے اس کا فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا، اگر یہ عدالت نمائندہ مقرر کرتی ہے تو عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے تناظر میں اس کی کیا حیثیت ہوگی؟۔ ہم جو بھی کریں، وہ فیصلے کی مطابقت میں ہونا چاہیے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ عدالت آپکی معاونت پر قانونی نمائندہ مقرر کرسکتی ہے؟۔ اگر ہم کسی نمائندے کو مقرر کرتے ہیں تو اس کے کیا اثرات ہونگے؟۔ ہم جو بھی کریں قانون کے مطابق کریں گے، عدالت کو مطمئن کریں کہ جب بھارت اور کلبھوشن یادیو متفق نہیں تو ہم کیسے کیس کو چلا سکتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ یہ مسئلہ نظرثانی کا نہیں بلکہ یہ کیس کلبھوشن کیلئے قانونی نمائندہ مقرر کرنے کا ہے، کلبھوشن یادیو کی قسمت کا فیصلہ اس کی نظر ثانی اپیل پر ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ بنیادی مقصد عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر معنی خیز عملدرآمد ہے، عالمی عدالت انصاف نے ماضی میں ایسے ہی مقدمات میں بہت سے فیصلے دیئے ہوں گے، ان فیصلوں کی روشنی میں عدالت کی معاونت کریں، ان فیصلوں پر کس طرح عملدرآمد کیا گیا؟۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ بھارت کو صرف اتنا کرنا تھا کہ اس عدالت میں دستاویزات کیلئے درخواست دینی تھی۔ اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ بھارت براہ راست اس عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ بھارت اس عدالت میں درخواست دے سکتا ہے، پیش ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ درخواست دائر کرنے کے لئے تو بھارتی حکومت ڈائریکٹ بھی آسکتا ہے۔ کلبھوشن بھارتی شہری ہے اگر وہ ڈائریکٹ آنا چاہے تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں، ہمیں انکی انٹینشن پر کوئی شک نہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم بھارت کی نیت پر شک نہیں کریں گے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ یہ معاملہ بھارت کا نہیں کلبھوشن یادیو کی جان کا ہے، اسی لیے عالمی عدالت انصاف میں کارروائی ہوئی، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ ہم ممکن بنائیں گے کے کلبھوشن یادیو کے جینے کا بنیادی حق متاثر نہ ہو۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت انصاف کے فیصلے کی پاسداری کیسے کریں، اٹارنی جنرل اور عدالتی معاون آگاہ کریں۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ تین سے چار ہفتے کا وقت دیاجائے، عدالت نے کہاکہ کلبھوشن عدالت آئے گا تو ہی ہم اس کے حق زندگی کے تحفظ کا معاملہ دیکھ سکیں گے۔
بھارت کلبھوشن کیس نہیں لڑنا چاہتا، سیاسی بیان بازی کررہا ہے: اٹارنی جنرل
Oct 07, 2020