آج کی دنیا نے جہاں انسان کے جینے کے تقا ضے بدل دئیے ہیں وہیں ہماری زندگیاں ایسی جدت سے آشنا ہوئی ہیں کہ رشتوں کے مفہوم بھی ا ب پہلے سے نہیں رہے ۔ فیس بک ، ٹوئٹر ،واٹس ایپ اور انسٹاگرام جیسی سماجی رابطے کی ویب سائیٹس اور ایپلیکیشنز نے لوگوں کو آپس میں اتنا قریب کر دیا ہے کہ اب آپ دنیا کے جس بھی کونے میں ہوں آپ اپنے پیاروں کے ہر وقت ساتھ ہوتے ہیں اور ساتھ ہی ایک گھر میں رہنے والوں کو اتنا دور کر دیا ہے کہ بچوں کے پاس ماں ، باپ کیلئے وقت نہیں ہے اور ماں باپ کے پاس بچوں کی تربیت ، انکے مسائل اور انکے ساتھ ان کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں بانٹنے کیلئے وقت نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ فاصلے سمٹ رہے ہیں لیکن محبتیں ختم ہوتی جا رہی ہیں ۔ یہ انہی سائنسی ایجادات کی کرشمہ سازی ہے کہ دور والے آپ کے قریب ہیں اور ساتھ رہنے والے بیگانہ ، اجنبی دوست ہیں اور اپنے سگے آپ کی شکل دیکھنے کو ترس جاتے ہیں ۔
سوشل میڈیا جو کہ آپ کو نئے نئے لوگوں سے متعارف کرواتا ہے ۔ ان میں سے کچھ آپ کے اتنے قریب ہو جاتے ہیں کہ اپنوں سے بھی بڑھ کر ، آپ کی خوشی اور غم میں ہر وقت شریک ، کچھ سے آپ کو سیکھنے کا بھی بہت موقع ملتا ہے ، وہیں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو کہ آپکی کمزوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھا لیتے ہیں ۔ یہ عجیب دنیا ہے اعتبار اور بے اعتباری کے درمیان پنپنے والے رشتے اگر آپ کے دوست اور ہمدرد بنتے ہیں، تو انہی میں سے کچھ لوگ بڑی آسانی سے دھوکے اور فریب کے جا ل میں بھی معصوم لوگوں کو پھنسا لیتے ہیں۔ اسی طرح مجرمانہ ذہن کے لوگ بھی بڑی آسانی سے دوستی کی آڑ میں ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن سکتے ہیں ۔ ایسے واقعات سبق دیتے ہیں کہ زندگی میں ہر قدم بہت سوچ سمجھ کے اٹھا نا چاہیے ۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں خصوصا خواتین کو بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے ۔
ہمارے ہاں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے جس میں آپ کو مختلف طرز عمل کے نوجوان نظر آئینگے ایک تو وہ لوگ ہیں جو کہ اس کو صرف ٹائم پاس کیلئے استعمال کرتے ہیں جن کا مشغلہ یا تو خواتین کے نام کی آئی ڈیز بنا کر لوگوں کو تنگ کرنا ہوتا ہے یا پھر نت نئی لڑکیوں سے دوستیاں کر نا ، انہیں محبت کے جھانسے دینا اور وقت گزاری کرنا ہوتا ہے۔ جن میں خواتین بھی شامل ہیں جو کہ الٹے سیدھے ناموں کی آئی ڈیز بنا کر لوگوں کو بیوقوف بنانے کے چکر میں ہوتی ہیں ۔ دوسری طرف ایک بہت بڑی تعداد ایسے نوجوانوں کی بھی ہے جو مختلف سیاسی جماعتوں کے آلہ کار بنے اپنا قیمتی وقت فیس بک اور ٹوئیٹر پہ ضائع کر رہے ہیں ۔ بلاشبہ قائد اعظم نوجوانوں کا سیاست میں آنا بہت ضروری سمجھتے تھے اور نوجوانوں کا سیاسی ہونا خوش آئند بھی ہے لیکن عملی میدان میں قدم رکھنے کی بجائے الفاظ کی جنگ جیتنے سے ملک ترقی نہیں کیا کرتے ۔ سوشل میڈیا پہ اپنے سیاسی مخالفین سے گفتگو میں الفاظ کی بیہودگی اور انتہائی غیر شائستگی نظر آتی ہے ، میں تو حیران ہوں کہ یہ لوگ اس طرح کی ننگی زبان استعمال کرتے ہیں کہ سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ بچے کن تعلیمی اداروں سے علم حاصل کر رہے ہیں اور ان کی مائیں ان کی کیا تربیت کر رہی ہیں؟ یہ کیسی سیاست ہے جو آپ کو ماں ، بہن ، بیٹی کی گالی دینے سے بھی روک نہیں پاتی ؟ یہ کیسی سیاست ہے جو آپ کو اپنے سے بڑوں کی عزت کا درس نہیں دیتی ؟ یہ کیسا آزادی اظہار ہے جس کا ا ٓغاز اور انجام دونوں گالی گلوچ ہے ۔ اسی طرح کچھ مجرمانہ ذہنیت کے لوگ اسے جرم کی آسانی کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں ۔
ان منفی پہلوئوں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے مثبت پہلو بھی بہت ہیں اور بہت اچھے ، شائستہ اور تہذیب یافتہ لوگ بھی آپ کو یہاں ملتے ہیں اور جن سے آپ کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے ۔ سوشل میڈیا کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ یہاں اپنی بات دوسروں کو پہنچانے کیلئے ہزاروں لوگوں تک باآسانی پہنچ سکتے ہیں ۔ خبر تک آپ کی رسائی انتہائی آ سان ہو گئی ہے ۔ نفسا نفسی کے اس دور میں جب آپکے پاس اپنے لئے بھی وقت بہت کم ملتا ہے ایسے میں اپنوں سے با خبر رہنے کیلئے بھی یہ ایک بہت آسان اور اچھا ذریعہ ہے ۔ نت نئی معلومات کا ایک ذخیرہ آپ کو باآسانی دستیاب ہے ۔
سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی پہلووٗں کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ اسے استعمال کریں اور کچھ ایسے اصول ضرور اپنا لیں جو کہ آپ کو آپ کی حد سے تجاوز نہ کرنے دیں ۔ گھریلو خواتین سے میری گزار ش ہے کہ اپنی تصاویر لگانے سے پرہیز کریں اور ایسے حضرات جو کہ اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنی تصاویر ذوق و شوق سے لگاتے ہیں یہ ان کیلئے نہ صرف کسی بڑی پریشانی کا باعث بن سکتی ہیں بلکہ ہماری وہ بزرگ خواتین مائیں جنہوں نے ساری زندگی پردے میں گزاری ہے ان کو اپنے شوق کی خاطر غیر لوگوں کے آگے بے پردہ نہ کریں ۔ آج کل اب ایک یہ بھی رواج چل نکلا ہے کہ جو لوگ دار فانی سے کوچ کر جاتے ہیں ان کے اپنے ان کی میت کی تصاویر لگا رہے ہوتے ہیں خدارا اس طرح کے کاموں سے اجتناب کریں ۔ خواتین کے بارے میں تو ہمارا مذہب اسلام ہمیں حکم دیتا ہے کہ ان کی میت کو کوئی غیر محرم نہ دیکھے ایسے میں ان کی تصاویر لگانا ان کی میت کی بے حرمتی کے برابر ہے ۔
اپنے آپ کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ضرور کریں ، سوشل میڈیا کا استعمال بھی بے شک کریں لیکن ایک بات یاد رکھیںانسان بڑے نقصانات سے صرف اسی صورت میں بچ سکتا ہے جب وہ زندگی اﷲ تعالی کے قرآن شریف میں دئیے گئے احکامات کے مطابق گزارے کیونکہ ہر نقصان کی تلافی ممکن نہیں بعض زخم اتنے گہرے ہوتے ہیں جو کہ گزرے وقت کے ساتھ ناسور بن کے زندگی اجیرن کئے رکھتے ہیں ۔ کسی کو دھوکہ دینے یا کسی کی زندگی برباد کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچیئے گا کہ دوسروں کے گھروں میں لگائی گئی آگ آپ کے اپنے گھر کو بھی جلا کر خاکستر کر سکتی ہے۔ زندگی پاکیزہ اور مثبت کاموں میں گزارئیے اور رشتوں کا احترام کی جیئے کیونکہ عزت دینے سے ہی ملتی ہے ۔
٭…٭…٭