پہلے وکی لیکس آیا جس پر شور برپا ہوا اور کئی نامور شخصیات کی کردار کشی کی گئی لیکن اس کا نتیجہ صفر ہی نکلا اور عوام میں ان کی چاہت میں کمی نہ آئی جبکہ ان شخصیات کے خلاف کارروائی کا عزم اور کوشش بے نتیجہ ثابت ہوئے۔ پھر پانامہ لیکس جاری ہوئیں جس میں اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف سمیت سینکڑوں پاکستانیوں کی آف شور کمپنیز کے بارے میں انکشافات ہوئے اور ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ سب کے خلاف تحقیقات اور کارروائی ہوگی لیکن یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پانامہ لیکس کے نام پر صرف میاں نوازشریف کے خلاف سپریم کورٹ نے کارروائی کرکے نااہل قرار دیا لیکن نااہلی پانامہ کے بجائے ’’اقامہ‘‘ پر ہوئی اور میاں نوازشریف کے علاوہ سینکڑوں پاکستانی جن کا نام پانامہ لیکس میں تھا‘ ان کے خلاف کوئی کارروائی سامنے نہیں آئی۔ پانامہ لیکس پر ایک وزیراعظم کا ٹرائل اور پھر اس کے ملک کی سیاست و معیشت پر اثرات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ۔ اب ایک بار پھر پنڈورا لیکس کی اشاعت ہوئی ہے جس میں حکمراں جماعت کے چند لوگوں کے علاوہ نامور عسکری شخصیات کے نام آف شور کمپنیز کا ’’انکشاف‘‘ کیا گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ان تمام لوگوں کے خلاف تحقیقات کا اعلان کیا ہے لیکن میری نظر میں یہ سب کچھ فضول ہے کیونکہ ماضی کی طرح اس بار بھی ان میں سے ’’مخصوص‘‘ لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کرکے انہیں ’’نااہلی‘‘ تک پہنچایا جاسکتا ہے اس کے علاوہ کسی کے خلاف کوئی ایکشن نہیں ہوگا ۔ یہ تمام ’’لیکس‘‘ عزت داروں کی عزت اچھالنے کے سوا کچھ بھی نہیں کیونکہ یہاں کسی کے خلاف منصفانہ کارروائی ہوتے نہیں دیکھی بلکہ نشانہ بناکر مخصوص لوگوں کا ٹرائل ہی ان لیکس کا مقصد ہے۔ میرے خیال میں پنڈورا لیکس کے معاملے میں عزت داروں کی کردار کشی کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا کیونکہ آف شور کمپنیاں جن ممالک میں بناکر کاروبار و سرمایہ کاری کی جاتی ہے وہاں ان کی باقاعدہ قانونی حیثیت ہے اور یہ سب قانون کے مطابق کیا جاتا ہے۔ اگر کسی کے پاس سرمایہ ہے اور وہ وہاں قانونی طریقے سے آف شور کمپنی بناکر سرمایہ کاری کرتا ہے تو ان کے اثاثے ان ممالک میں بالکل محفوظ ہیں اور انہیں قانونی پروٹیکشن حاصل ہے۔ رہی بات ہماری تحقیقات کی تو‘ پہلے کیا حاصل ہوا؟ امریکہ و یورپی ممالک کی پالیسی ہی یہی ہے کہ مسلم ممالک میں ان کی مرضی کے ایسے حکمران براجمان ہوں جو وہاں کے وسائل و دولت لوٹ کر امریکہ و یورپی ممالک میں سرمایہ کاری کریں اور اس کے عوض ان ’’مسلم حکمرانوں‘‘ کو یہ یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ ہم آپ کے اقتدار کے دوام میں بھرپور مثبت کردار ادا کریں گے۔ امریکہ و یورپی ممالک پہلے بھرپور سرپرستی کرکے مسلم ممالک سے دولت اپنے ملک لانے کی کھلی چھوٹ دیتے ہیں اور پھر اگر کہیں ان شخصیات سے اختلافات پیدا ہوجائیں تو پھر وکی لیکس‘ پانامہ لیکس اور پنڈورا لیکس شائع کرکے ان کی کردار کشی کی مہم شروع کردیتے ہیں۔ FATFکی زیادہ تفصیلات کا مجھے علم نہیں لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ اس میں کہیں اس بات کی سختی کرنے کی شرائط نہیں ہوں گی کہ پاکستان سے بھاری رقوم کی امریکہ و یورپ منتقلی کو مانیٹر کیا جائے اور انہیں روکا جائے بلکہ اس میں اس بات پر سختی کرنے کا کہا گیا ہوگا کہ پاکستان آنے والی رقوم کو مانیٹر کیا جائے۔امریکہ و یورپ کی زیادہ تر معاشی ترقی میں مسلم ممالک کے نامور خاندانوں کی سرمایہ کاری کا اہم کردار ہے اور انگریز کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ ان کے ممالک میں سرمایہ کاری میں کوئی رکاوٹ آئے۔دبئی میں جائیدادیں رکھنے والے پاکستانیوں کی بڑی فہرست جاری ہوئی تھی اور ان کے خلاف بھی کارروائی کا عزم کیا گیا تھا۔ اس متعلق سنا ہے کہ تمام کارروائی میں حکومتی خزانے میں بہت معمولی رقم آئی ہے اور تمام تر کارروائی اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے۔ پنڈورا لیکس کا انجام بھی پانامہ لیکس سے مختلف نہیں ہوگا۔ ہاں البتہ حکومت اس بہانے میڈیا میں عوام کی توجہ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ بدانتظامی و دیگر خامیوں سے ہٹانے میں ضرور کامیاب رہے گی۔جیسا کہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان اس معاملے میں بیان بازی زور و شور سے جاری ہے اور عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کی کامیاب کوشش جاری ہے۔ حکومت پاکستان کو اس تمام معاملے میں صرف ایک کام کرنا چاہئے کہ پاکستان سے رقوم کی بیرون ملک منتقلی پر سخت مانیٹرنگ رکھنی چاہئے اور پاکستان سے سرمائے کی اندھا دھند دوسرے ممالک میں منتقلی کو اگر کامیابی سے روک لیا جائے تو مستقبل میں ایسی لیکس شائع ہونے کی نوبت نہیں آئے گی۔ اس کے علاوہ حکومت اگر کسی کارروائی کے لئے پرعزم ہے تو سب سے پہلے حکومتی اراکین سے اس کا آغاز کیا جائے۔حکومتی جماعت انتخابی منشور میں عوام کو سہانے خواب دکھاکر اقتدار میں آئی تھی اور نئے پاکستان کے قیام کا وعدہ کیا گیا تھا۔ 2018ء میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں پر حکمراں جماعت کے رہنما تنقید کرتے ہوئے آپے سے باہر ہوجاتے تھے اور وفاقی وزراء کے ایسے ایسے بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ 2018ء میں چیزوں کے نرخ عوام کی تباہی کا باعث تھے لیکن موجودہ حکمراں جماعت کے اقتدار کے 3سال مکمل ہونے کے بعد اشیائے خوردو نوش کی قیمتیں دوگنی کے لگ بھگ ہوچکی ہیں لیکن اب بھی عوام کو جھوٹے دلاسے ہی دیئے جا رہے ہیں۔