جھوٹ سچ ساتھ ساتھ

ملک میں بجلی کی پیداواری لاگت میں 60 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایک سال میں ایل این جی سے لاگت 6 روپے 42 پیسے ڈیزل پر 3 روپے 19 پیسے فی یونٹ بڑھی۔ جماعت اسلامی واحد سیاسی جماعت ہے جو سال میں ایک دو بار مہنگائی کیخلاف احتجاجی مظاہرے کرتی ہے۔ جیسے کشمیر کیلئے ریلیاں نکالتی ہے اور پھر بس مہنگائی سے زیادہ ڈھیٹ ہٹ دھرم کوئی اور چیز نہیں۔ سیاست دانوں کی باتوں میں نئی بات کوئی نہیں ہوتی۔ تخلیق کاروں، ڈرامہ نویسوں کی باتیں بہت حد تک نئی اور حقیقت کے قریب ہوتی ہیں۔ حکومت کی دوڑ ہفتہ وار افسروں کے تبادلے سے آگے نہیں جاتی۔ ایک گیٹ سے ہٹا کر دوسرے پر بٹھا دیتی ہے۔ ملک وسائل سے نہیں ذہنی سوچ سے بدلتے ہیں۔ افسروں کا معمول زندگی نہیں بدلتا‘ تھانیداروں کے ڈائیلاگ کے جزو لاینفک میں گالی سرفہرست ہے۔ تھانہ کلچر کی تبدیلی میں تھوڑی بہت کمی خاتون افسروں کی تعیناتی سے ممکن ہو سکتی ہے۔ جیسے میں نے ساری زندگی ایم اے او کالج میں پڑھایا‘ ایک زمانے میں اس کی شہرت داغدار تھی‘ یونین گردی تھی‘ لیکن ہائر کلاسز میں لڑکیوں نے داخلے لئے اور خواتین اساتذہ کی تعیناتی کے بعد یونین بھاگ گئی۔ کالج کا چہرہ اس حد تک بدلا کہ اب وہ اندر سے گرلز کالج دکھائی دیتا ہے۔ مخلوط ماحول سے دفاتر‘ کالجوں‘ یونیورسٹیوں میں طاقت کا توازن قائم ہوتا ہے۔ ہر کلاس میں گرلز کو بھی بطور گرلز کونسلر جی آر کے قیادت ملتی ہے۔ سرکاری دفاتر کے کلچر میں اور رشوت خوری میں ممکنہ حد تک کمی کے لئے پچاس فیصد زنانہ سٹاف ضروری ہے۔ اس وقت تمام گرلز کالجوں کا آفس سٹاف مردانہ کلرکوں پر مشتمل ہے۔ جن کے ہاتھوں گریڈ 20 تک کی پروفیسر بیزار رہتی ہیں۔ ان کی پروموشن ریٹائرمنٹ کے کیس کلرکوں کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں۔ وزیراعلیٰ کو ایسی بنیادی تبدیلی کیلئے کسی چیف سیکرٹری نے مشورے نہیں دیئے۔ سیکرٹری بھی یہ سوچ کر قدم نہیں اٹھاتے کہ کرسی سے ان کا رشتہ مہینوں کا بھی نہیں ہفتوں کا ہوتا ہے۔ ڈی آئی جی اپریشنز کو پہلے ہٹایا اور پھر چند دن کی ریسٹ دیکر ڈی آئی جی پنجاب مقرر کر دیا۔ سٹاک مارکیٹ آوارہ منش ہے۔ ایک جگہ ٹھہرتی نہیں۔ ہر روز جگہ بدلتی ہے۔ کہا جاتا ہے آئی ایم ایف کی سخت شرائط کرنٹ اکائونٹ خسارے میں روزبروز اضافہ سے سٹاک مارکیٹ میں مندا برقرار ہے۔ کئی لوگوں کا ذریعہ معاش شیئرز خریدنا اور بیچنا ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں کاروبار کرنا پھل سبزی منڈی کی طرح نہیں‘ یہ عام لوگوں کی بچتوں کو حلق سے اتار کر ڈکار تک نہیں لیتی۔ کریک ڈائون کا لفظ محض ڈراوا یا رشوت کا نیا باب کھولنا ہوتا ہے جیسے ایک وقت تھا کہ ٹریفک وارڈنوں نے ہیلمٹ کے نام پر موٹر سائیکل سواروں کا جینا حرام کیا ہوا تھا اور اب مرغی‘ بکرے گائے کا گوشت شہریوں کی پہنچ سے دور ہو گیا ہے۔ قصائی کے سامنے بولنا نہ بولنا برابر ہوتا ہے۔ بیف 500 اور مٹن 1400 روپے کلو سے کہیں کم نہیں۔ مرغی کا گوشت 300 روپے کلو سے بڑھ چکا ہے‘ کونسی عدالت میں قصائیوں کیخلاف پٹیشن دائر کی جائے۔ عدالتی فیصلوں کو قصائی کیا اہمیت دینگے۔ کریک ڈائون کا اختیار رکھنے والوں کے گھر پر اعلیٰ ترین مٹن خود پہنچا دیا جاتا ہے۔ گائے کے گوشت کے خریدار غریب اور متوسط درجے کے لوگ ہیں۔ انگریز کے دور اور قیام پاکستان کے ابتدائی سالوں میں سائیکل پر بھی اور ہارن لگا ہوتا تھا اور ہر قصائی کی دکان پر باریک جالی لگی ہوتی تھی اور اب سارا دن مکھیاں کسی عاشق نامراد کی طرح چمٹی رہتی ہیں اور اب کپڑوں کی طرح گوشت گلی محلوں کے پھٹوں پر ٹانگ کر بیچا جاتا ہے۔ ممکن نہیں کہ قصائی جالیوں سے اپنی دکانیں ڈھانپ لیں۔ ہیلمٹ کی طرح شاپر کی زبانی کلامی شامت آئی لیکن وہ ڈھیٹ اتنا ہے کہ دکانوں سے اس کی یاری نہ گئی۔ حقیقت میں دودھ دہی گھر لے جانے کا طریقہ یہی تو ہے۔ برتن اٹھا کر چلنا آسان نہیں‘ اسی طرح پرانے دور میں عورتیں ہاتھوں میں پلاسٹک کی ٹوکری لے کر سبزی خریدنے جایا کرتی تھیں۔ مگر اب یہ بات مفقود ہے۔ گئے دنوں کی باتیں گئے دنوں کے ساتھ رخصت ہو گئیں۔ کبھی بغلی قبریں بنتی تھیں۔ اب ایک باکس کی قبر کھود دی جاتی ہے۔ گورکن جو چاہے اس کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔ تجارتی خسارہ 120 فیصد کی انتہائی بلند سطح پر صرف دو ماہ جولائی اگست میں پہنچ گیا جس کے بعد درآمد شدہ اشیائے تعیش پر ریگولٹری ڈیوٹی لگنے جار رہی ہے تاکہ غیر ضروری درآمدات کی حوصلہ شکنی ہو۔ گاڑیوں سمیت کاسمیٹکس‘ باتھ روم کا تعمیراتی سامان‘ مشینری‘ ٹیکسٹائل مصنوعات‘ گرم کپڑوں اور کھانے پینے کی غیرضروری اشیاء پر درآمدی ڈیوٹی بڑھائی جا رہی ہے۔ سٹیٹ بنک نے بھی کرنٹ اکائونٹ خسارہ جی ڈی پی کے دو سے تین فیصد کی حد رکھنے کا پروگرام بنایا ہے۔ رواں مالی سال میں یہ خسارہ چھ سے 9 ارب ڈالر کے برابر ہے۔ جون 22 کے آخر تک یہ 10 سے 12 ارب ڈالر تک بڑھ سکتا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر نے بمشکل 20 ارب ڈالر کی سطح عبور کی ہے۔ اس سال جولائی اور اگست کے مہینے میں امپورٹ 72 فیصد اضافے سے 12 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے جبکہ اس دوران ایکسپورٹ 4.6 ارب ڈالر رہی جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ 7.5 ارب ڈالر اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ 23 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ اس دوران بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے 29 ارب ڈالر کی ریکارڈ ترسیلات زر موصول ہوئیں۔ پاکستان خطے میں زرعی اجناس چینی‘ گندم‘ پام آئل‘ دالیں‘ پھل اور سبزیاں ایکسپورٹ کرتا تھا۔ لیکن آج ان اشیاء کو امپورٹ کر رہا ہے۔ امپورٹ کی گئی گاڑیوں پر نجی بنکوں کی رعایتی فنانس ختم کردی گئی ہے۔ جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح 10 سے گیارہ فیصد ہے۔ 22 کروڑ کی آبادی میں صرف 62 لاکھ افراد کی سالانہ آمدنی چار لاکھ روپے سے زائد ہے۔ یکم نومبر سے گھریلو صارفین کیلئے گیس کے نرخوں میں 35 فیصد تک اضافہ کرنے کی تجویز ہے۔ ملک میں وسیع پیمانے پر بجلی اور گیس کی چوری ہوتی ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے کی بجائے انکی چوری کا سدباب کیوں نہیں کیا جاتا۔ یوٹیلٹی سٹورز پر قیمتیں مہینے میں چوتھی بار بڑھا دی گئیں۔ سفید چنا کی قیمت 120 سے بڑھا کر160 روپے فی کلو کر دی گئی۔ مارکیٹ اور پرائس کنٹرول کمیٹیاں محض نام کی رہ گئی ہیں۔ پرائس مجسٹریٹ سسٹم دوبارہ لانے پر حکومت غور کر رہی ہے۔  (جاری)

پروفیسر خالد محمود ہاشمی

ای پیپر دی نیشن