ترقی کے اس دور میں انسان نے زمین کا سینہ چیر کر بیشمار قدرتی وسائل کے ذخائر تلاش کرلیے اور ان سے فائدے اٹھا کر خوشحالی کی بے مثال تاریخ رقم کردی ہے۔ ابھی تو کتنے قدرتی خزانے انسان کی پہنچ سے دور ہیں جن کی اسے خبر ہی نہیں۔ آنے والا ہر لمحہ نئے حقائق کھول رہاہے مگر جاہل، کاہل، غافل اور بے ہنر قومیں ان خزانوں کے ہوتے ہوئے بھی محرومیوں کا شکار ہیں۔ انہیں اپنے وسائل کی خبر تک نہیں اور اگر ہو بھی جائے تو استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں جبکہ ترقی یافتہ دنیا ان خزانوں کو لوٹ رہی ہے۔ پاکستان میں اللہ تعالیٰ نے جو قدرتی وسائل عطا کئے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ یہ دنیا کا امیر ترین مک بن سکتا ہے۔ہمارے خزانوں میں دیگر بیشمار معدنیات بھی شامل ہیں ۔ آبی ذخائر بھی ہیں اور گیس کے ذخائر بھی ہیں۔ ہمارے ہنر مندوں کا بیرون ملک سے زرِ مبادلہ بھی شامل ہے۔ ضرورت کی صلاحیت رکھتی ہو۔ علم و ہنر کے میدان میں سب سے آگے ہو۔ خود انسان سب سے بڑا خزانہ ہے جو علم و ہنر سے بنتا ہے۔ یہ سب خزانے اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں اور نعمتوں کا حساب ہوگا۔جو ممالک ہمارے بعد میں آزاد ہوئے اور ترقی کے میدان خصوصاً انڈسٹری میں آگے نکل گئے ہیں وہ ابتدائی دور میں ترقیاتی منصوبے پاکستان سے لیتے تھے۔ صدر محمد ایوب خاں کے دورِ حکومت میں پاکستان صنعت کے میدان میں اتنی ترقی کررہا تھا کہ دوسرے ممالک ہماری تقلید کرتے تھے اور آج ہماری انڈسٹری تباہ ہوچکی ہے۔ ہمیں اس پر خصوصی توجہ دے کر قدم قدم پر انڈسٹری کو وسعت دینا ہوگی۔ سٹیل مل کی موجودگی میں صنعتی مشینری کی تیاری ملک میں ممکن بنائی جاسکتی ہے تاکہ مشینری کی امپورٹ پر زرِ مبادلہ بچایاجاسکے۔ خصوصی مراعات دیکر صنعت کی حوصلہ افزائی کرنا پڑے گی تاکہ لوگوں کو روز گار ملے اور ہم دنیا کے نہ صرف شانہ بشانہ چل سکیں بلکہ آگے نکل سکیں۔صنعتی مشینری کی درآمد اگر ٹیکس فری کرنی پڑے تو کی جائے۔بجلی کی فراہمی پن بجلی سے مستقل اور سستی ہو۔ ورکرز کیلئے ٹرانسپورٹ کی سہولت ہو۔ انکم ٹیکس کی شرح آسان ہو اور باقی تمام ٹیکس ختم ہوں۔ ایکسپورٹ اور امپورٹ کو آسان بنایا جائے۔ ہماری مصنوعات عالمی معیار کی ہوں۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے اس کی زمین زرخیز ہے اور اس کانہری نظام دنیا کا بہترین آبی نظام ہے۔ پانچ دریا جس دھرتی کو سیراب کرتے ہوں وہاں زمین جنت کا نمونہ بن جاتی ہے لیکن اب دریائوں کا پانی انڈیا اپنے ملک میں ڈیم اور نہریں بنا کر پاکستان سے روک رہا ہے جس کا نتیجہ پاکستان میں خشک سالی کی صورت میں ظہور پذیر ہوگا۔ لیکن اگر ہم اپنے ڈیم بنا کر پانی ذخیرہ کرسکتے ہیں تو بجلی کی پیداوار بھی ضرورت سے زیادہ ہوگی اور پورا سال فصلوں کو پانی بھی ملے گا۔ نہری نظام کو مزید بہتر بناکر بنجراور غیرآباد زمینوں کو جنگی بنیادوں پر زرخیز بنایاجائے اور زرخیز زرعی رقبوں پر ہائوسنگ پراجیکٹس کی ممانعت کر کے انھیں بنجر رقبوں تک محدود کیا جائے وگرنہ بڑھتی ہوئی آبادی کیلئے زیرِ کاشت رقبوں میں کمی ہولناک غذائی بحران کا سبب بن سکتی ہے۔فصلوں کی کاشت کیلئے ضرورت مند کاشتکاروں کو سستی بجلی اور بلا سود قرضہ ملے تاکہ وہ کاشت کے عمل یعنی کھاد، بیج پانی کو پورا کرکے بہترین پیداوار لے سکیں اور قرضہ بھی واپس کرسکیں۔ بھل صفائی کا انتظام ہو۔ فصلیں مکمل ہونے کے بعد ان کی پیداوار کے وقت انتظامات ناقص ہونے کی وجہ سے بہت زیاں ہوتا ہے۔ گنے کے کاشتکار اکثر پریشان ہوتے ہیں۔ گندم کی خریداری اور انتظامات بروقت نہ ہونے سے اجناس ضائع ہوجاتی ہیں۔ پیداوار کو محفوظ کرنے کے انتظامات معیاری ہونے چاہئیں۔ کپاس، گندم، گنا، مکئی، چاول اور دالوں کی امدادی قیمت بروقت مقرر ہونی چاہیے۔بہتر پیداوار کیلئے زمینی اجزاء کی تحقیق ہونی چاہیے۔زرعی یونیورسٹیاں زیادہ ہوں اور منڈیوں کے مسائل حل کیے جانے چاہئیں۔ ریسرچ کے شعبے کو مزید ترقی دی جائے تاکہ زیادہ پیداوار کی ٹیکنالوجی اور بھر پور پیداواری صلاحیت کے بیج دستیاب ہوں جن میں بیماریوں اور کیڑوں سے دفاعی قوت بھی زیادہ ہو۔ بیج اور ادویات بھی خالص ہوں۔کاشتکار کو اپنی پیداوار گاہک تک پہنچانے کیلئے پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے درمیانی منافع خورخوب لوٹتے ہیں اور کاشتکار کی سستی چیز گاہک تک مہنگی ہوکر پہنچتی ہے۔ درمیانی منافع کوکنٹرول کر کے کاشتکار اور گاہک کو فائدہ پہنچایا جائے۔ مویشی پالنے ، ڈیری فارم اور پولٹری فارمز کو فروغ دیں۔ ایکسپورٹ ہونے والی اجناس، سبزیاں اور پھل وغیرہ کی قیمتوں میں بہت زیادہ نشیب وفراز آتے ہیں جس سے کاروباری طبقہ ہمیشہ خوفزدہ رہتا ہے اور اس کی وجہ حکومتی پالیسیاں ہوتی ہیں۔ کوئی مستقل پالیسی ہو جس سے تاجر کا اعتماد بحال ہوسکے۔