ہمارے ہاں ہر حکومت یہ واویلا مچاتی ہے کہ پاکستانی ٹیکس نہیں دیتے۔ آپ روزمرہ استعمال کی کوئی چیز اٹھا کر دیکھ لیں اس کی قیمت کے ساتھ ٹیکس بھی لکھا ہوگا۔ بجلی، پانی، فون، سوئی گیس کا بل ہو یا کسی ہوٹل میں کھایا جانے والا کھانا اس میں ٹیکس شامل ہوگا۔ یوٹیلٹی بلوںمیں تو کئی قسم کے ٹیکس لکھے ہوتے ہیں جو عام شہری کی سمجھ میں بھی نہیں آتے۔لیکن پھر بھی پاکستانی شہریوں پر یہ الزام کہ یہ ٹیکس نہیں دیتے۔ ہماری حکومتیںبیرونی ممالک کی مثالیں دیتے ہیں کہ وہاں کے شہری اتنے ٹیکس دیتے ہیں لیکن حکمران یہ نہیں بتاتے کہ ان ٹیکسوں کے بدلے میں وہاں شہریوں کو کتنی سہولتیں ملتی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں عوام کی ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی عوام پر خرچ نہیں کی جاتی۔سرکاری سکولوں، ہسپتالوں، سڑکوں، انفرسٹرکچر، سرکاری اداروں سب کی حالت دیکھیں تو عوام پر ترس آتا ہے۔ عوام فی لٹر پٹرول پر تیس چالیس روپے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ پٹرول، ڈیزل ،مٹی کا تیل ، گیس آئے روز مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ گھی اور دالیں کبھی چالیس پچاس روپے کلو ملتی تھیں اب ان کی قیمتوں میں تیس چالیس روپے فی کلو اضافہ ہوتا ہے۔ عوام سے حاصل ہونے والے ٹیکسوں اور اندرونی و بیرونی اربوں روپے کے قرضوں کی بھاری رقوم کہاں جاتی ہیں، کہاںخرچ کی جاتی ہیں عوام کو اس کی تفصیل سے آگاہ نہیں کیا جاتا۔ہر سال بنک، صارفین کے اکاؤنٹس سے زکوٰۃ کی کٹوتی کرتے ہیں۔ یہ حکومت پرعدم اعتماد ہی ہے کہ یکم رمضان سے پہلے لوگ بنکوں سے اپنی رقوم نکال لیتے ہیںاور خود زکوٰۃ دیتے ہیں تاکہ انہیں تسلی ہو کہ ان کی زکوٰۃ کی رقم صحیح جگہ خرچ ہوئی ہے۔تمام اشیاء کی قیمتوں اور بڑھتے ہوئے ٹیکسوں کی ایک وجہ عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط بھی ہیں کیونکہ حکمران اپنی جیبیںاور اکاؤنٹ بھرنے کے لیے ان مالیاتی اداروں سے اربوں روپے کے قرضے لیتے ہیں اور سارا بوجھ عوام پر ڈال کر چلتے بنتے ہیں۔ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے گزشتہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں جمع کردہ دس کھرب10ارب روپے کے مقابلے میںحالیہ سال کے ان ہی تین ماہ میں13کھرب اور95ارب کا ٹیکس اکٹھا کیا۔ اسی طرح رواں سال میں صرف ستمبر کے مہینے میں حاصل کردہ ریونیو میں 30فیصد سے زاید اضافہ ہوا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ لوگ ٹیکس دیتے ہیں اور دینا بھی چاہتے ہیں لیکن اس میں بڑی رکاوٹ بدعنوان عناصر ہیں۔ میں ایک شخص کو قریب سے جانتا ہوں جس نے کئی سال پہلے ایک دوست سے مل کر بچوں کے لیے کتابیں شائع کرنے کے لیے ایک چھوٹا سا دفتر اٹھارہ سو روپے ماہوار کرائے پر لے کر کام شروع کیا اور حب الوطنی کے جذبے کے تحت این ٹی این نمبر بھی لے لیا۔ کام چل نہ سکا۔ اب دفتر بند ہوئے بھی کئی سال ہو چکے ہیں مگر ایف بی آر ابھی تک نوٹس پہ نوٹس بھیجتا جا رہا ہے۔ وہ ایک نوٹس کا جواب دیتے ہیں تو دوسرا آجاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ لوگ سکون سے ہیں جو نہ ٹیکس ریٹرن جمع کرواتے ہیں اور نہ ہی ٹیکس دیتے ہیں۔ ہر سال اربوں روپے کی ٹیکس چوری ایف بی آر کے بدعنوان عناصر کی وجہ سے ہوتی ہے جو بڑے سرمایہ داروں کو ٹیکس بچانے کے طریقے بتا کراپنی جیبیں بھرتے ہیں اور سرکاری خزانے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ میری تجویز ہے کہ ملک بھر کے کئی لاکھ تاجر ٹیکس ریٹرن جمع کرواتے ہیں لیکن ان کا ٹیکس نہیں بنتا۔وہ ہرسال مختلف وکیلوں کو پانچ سے آٹھ ہزار روپے دے کر ٹیکس ریٹرن کے فارم بھرواتے ہیں۔ گزشتہ دو تین سال سے ٹیکس گوشوارے جمع کروانے اور ٹیکس فری قرار پانے والوں کا پانچ چھ ہزار روپے ٹیکس فکس کر دیا جائے تو وہ ہر سال جو رقم وکیلوں کو دیتے ہیں وہ ٹیکس کی مد میں قومی خزانے میں جمع ہو جائے گی جو ہر سال کروڑوں روپے بنے گی۔چھوٹے تاجر اور دکاندار فکس ٹیکس دینے کے لیے تیار ہیں کیونکہ وہ دستاویزی پیچیدگیوں سے ناواقف ہیں اگر ان کو فکس ٹیکس کے تحت ٹیکس دہندگان میں شامل کر لیا جائے تو بھی حکومتی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔لیکن ایف بی آر کے بد عنوان عناصر اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔لہٰذا ایف بی آر میں اصلاحات لانا اور ٹیکس دستاویزات کو آسان اور اردو زبان میں بنانے کے علاوہ ایف بی آرکی طرف سے مفت رہنمائی فراہم کرنا ضروری ہے۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے دکانداروں اور تاجروں سے فکس ٹیکس کی وصولی کے علاوہ بڑے بڑے سرمایہ داروں سے پورا ٹیکس وصول کرنے کے اقدامات کیے جائیں جو مختلف طریقوں سے سالانہ اربوں روپے ٹیکس چوری کرتے ہیں تو ملکی معیشت میں بہتر ی اور عوامی خوشحالی کی امید کی جا سکتی ہے۔