سکینڈل اور پینڈورا پیپرز؟

سکینڈل تو صرف دو ہی اقسام کے ہوتے ہیں، مالیاتی سکینڈل یا پھر جنسی … تیسری کوئی قسم تا حال ہماری معاشرت میں متعارف نہیں ہو سکی۔ بلکہ ہمارے یہاں تو انگریزی لفظ سکینڈل کا کوئی اردو معنی بھی موجود نہیں۔انگریزی لغت میں سکینڈل کے معنی دیکھیں تو ایسی کوئی نوعیت یا اقدام جو انسان کے لیئے رسوائی و بدنامی کا باعث بنے سکینڈل کہلاتا ہے۔یوں ہم سمجھتے ہیں کہ مالیاتی خرد برداور ناجائزجنسی’لین دین‘ کی تعبیر کے لیئے سکینڈل لفظ استعمال ہوگا۔لیکن ہماری عمرانیات (sociology)  کے مطابق جنسی سکینڈل ہی واحد سکینڈل ہے جو انسانی رسوائی کا موجب ہوتا ہے اور جس سے لوگ واقعی ڈرتے ہیں۔ موجودہ دور میں بھی سیاسی مخالفین ایک دوسرے کو وڈیو  منظر عام پر لانے کا ڈراوا دے کر بلیک میل کرتے ہیں۔ ڈیجیٹل دور میں تو ویسے بھی خفیہ کیمرے کب اور کہاں آپ کو دیکھ لیں، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔اسی لیئے کوئی بھی اپنی پارسائی پر چھینٹ نہیں آنے دیتا اور جنسی سکینڈل سے خائف رہتا ہے لیکن  یہ مالیاتی کرپشن اور خرد برد کے الزامات تو بالکل ہی بے اثر ہوتے جا رہے ہیں۔ پانامہ پیپیرز ہوں، یا پنڈورا پیپرز، چینی چوری کی تحقیقاتی رپورٹ ہو یا آڈٹ اعتراضات، کرپشن رپورٹس ہوں یادستاویزی ثبوت، پلاٹ یافتہ فہرست میں نام ہوں یا کسیفرنچائز میں‘کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جن پر الزامات عائد ہوں وہ انہیں انتہائی اعتماد کے ساتھ جھٹلا دیتے ہیں کہ یہ تو ہماری حق حلال کی کمائی ہے۔اگر کسی کے پاس کرپشن کے ثبوت ہیں تو سامنے لائے۔ان افراد کو اچھے طریقے سے معلوم ہوتا ہے کہ اتنا وقت پیسہ اور توانائی کس کے پاس ہے کہ دال میں سے کالا نکالے۔ یہ کام اور بھی مشکل ہو جاتا ہے جب پوری دال ہی کالی ہو۔بلکہ یہ کہنا ذیادہ مناسب ہو گا کہ مالیاتی کرپشن  اتنی  ہے کہ ہم اس حوالے سے ڈی سینیٹائزڈ ہو گئے ہیں۔ کوئی مالیاتی کرپشن یا خرد برد کے الزام آ جائیں، ملزم، الزام دہندہ، اور عوام سب کے دماغ میں چل رہا ہوتا ہے کہ’کچھ نہیں ہو نے والا‘۔اوپر سے ہمارانظام تفتیش اور نظام عدل، دونوں ہی بالواسطہ طور پر مجرموں کے سہولت کار ہیں۔ ایسے میں بڑی بڑی مچھلیاں تو احتساب کے جال کو پھاڑ کر نکل جاتی ہیں۔’کچھ نہیں ہو گا‘ کی سوچ ہمارے معاشرے میں سرایت کر چکی ہے۔ اس نظام کو فعال اور موثر ثابت کرنے کے لیئے قربانی کا بکرا صرف غریب اور نادار کو بنایا جاتا ہے۔ اب پنڈورا پیپرز کو ہی دکیھ لیجیئے، آئی سی آئی جے کی تحقیقات میں کسی حاضر سروس جج کا نام نہیں، کسی حاظر سروس جرنل کا نام نہیں۔ ہمارے دوست ( انگریزی اخبار کے تحقیقی رپورٹر) چونکہ پاکستان میں رہ کر آئی سی آئی جے کے لیئے تحقیقاتی صحافت کرتے ہیں، اس لیئے  اپنے اس اختیار کاا ستعمال انہوں نے ضرور کیا ہو گا کہ تحقیقات کے لیئے انتخاب ایسا ہو کہ نہ تو حسن انتخاب پر کوئی آنچ آئے اور نہ ہی آئین پاکستان کے تحت انکی شخصی آزادی  پر کوئی قدغن لگے۔ جن معزز حضرات کے نام پینڈورا پیپرز میں آئے ان میں سے پبلک فیگرز نے تو فوری وضاحتیں دینا شروع کر دیں۔ موجود وزیر خزانہ شوکت ترین نے بتا دیا کہ انکی آف شور کمپنی تو سلک بنک کی فنڈنگ کے لیئے بنائی گئی تھی جسکا منی لانڈرنگ سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کمپنی اب غیر فعال ہو چکی ہے۔ وزیر اعظم کے دست راست علیم خان کا نام سامنے آیا تو انکی وضاحت آگئی کہ آف شور کمپنی تو ان کا ڈیکلیئرڈ ا ثاثہ ہے، الیکشن کمیشن کے گوشواروں اور انتخابی کاغذات میں وہ اپنی کمپنی ڈیکلئر کر چکے ہیں۔ اسحاق ڈار کے بیٹے علی ڈار کا نام آیا تو  انہوں نے وہ وضاحتی خط اپنے ٹویٹر ہینڈل پہ شیئر کر دیا جو انہوں نے رپورٹر کے سوالات کے جواب میں لکھا تھا جسکے مطابق وہ لڑکپن سے ہی دوبئی میں کاروبار کر رہے ہیں اور آف شور کمپنی انکے حق حلال کے پیسے سے بنی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شفاعت شاہ نے بھی ٹویٹر کے ذریعے بتا دیا کہ انکا لندن میں فلیٹ انکا ڈیکلیئرڈ اثاثہ ہے اور یہ کہ کسی آف شور کمپنی کے ذریعے بیرون ملک جائیداد خریدنا کوئی غیر قانونی عمل نہیں۔ سابق آرمی افسر راجہ نادر پرویز ٹی وی پر آکر وضاحت دے رہے ہیں۔کچھ چینل مالکان کے نام بھی ہیں جن کو کچھ نہ ہونے کا اتنا یقین ہے کہ انہوں نے اپنے ہی چینل پر اپنا نام چلانے کی اجازت دے دی۔ الغرض جنسی سکینڈل اور وڈیوز سے کوئی ڈرتا ہو تو ضرور ڈرے لیکن ہماری احتسابی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں مالیاتی کرپشن کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔بیوروکریسی ہویا عسکری میدان، عدالتی چیمبر ہو یا پارلیمانی راہداریاں، ایوان اقتدار ہو یا کوئی اور میدان، مالیاتی کرپشن کی کہانیاں ہر جگہ موجود ہیں، انسانی فطرت ہے جو چیز وافر مقدار میں ہو انسان اسے معمول کی چیز سمجھتا ہے ہم بھی شاید قومی حلقوں میں مالیاتی کرپشن کو معمول کی کاروائی سمجھتے ہوئے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ آج پینڈورا پیپرز پر جتنا شور مچ رہا ہے کل قصہ پارینہ ہو جائے گا۔ کل تک پینڈورا پیپیرز ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ تھا آج ٹرینڈنگ لسٹ سے غائب ہو چکا ہے۔لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید پانچ سال قبل پانامہ لیکس کی طرز پر احتساب کی کوئی ہیجانی سرعت دیکھنے کو ملے گی لیکن وہ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ پانامہ ایک بہانہ تھا،  اوروہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ پانامہ میں آنے والے دیگر ساڑھے چار سو ناموں میں سے کسی کے خلاف آج تک کوئی کاروائی نہیں ہو سکی۔ اس لیئے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ آنے والے دنوں میں پینڈورا پیپرز بھی عوامی ذہنوں سے نکل جائے گا، عوام کی یادداشت ویسے بھی کمزور ہے۔

ای پیپر دی نیشن