اگر سرکاری ملازموںیا زبردستی لوگوں کو پکڑ کر سزائوں سے خوفزدہ کر کے جلسہ کرنا جلسہ گاہ بھرنا کامیابی کی علامت ہے تو ا س میں بھی امیت شاہ کو کم از کم جموں و کشمیر کے دورے میں مکمل ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔جموں میں ہندو اکثریتی علاقوں میں بھی امیت شاہ کے دورے پر سخت منفی ردعمل سامنے آیا جہاں ڈوگرہ سیاسی و سماجی تنظیموں نے ان کے دورے کا بائیکاٹ کیا اور احتجاجی مظاہرے کر کے ریاست کی سابقہ آئینی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ریاست میں ڈوگرہ مہاراجہ کی حکومت بحال کی جائے اور غیر ریاستی افراد کو ملازمتیں نہ دی جائیں۔ اس سے ان کا استحقاق متاثر ہوتا ہے۔ یوں مسلمانوں کے علاوہ جموں و پہاڑی علاقوں کے ڈوگروں نے بھی بھارتی حکومت کے منہ پر طمانچہ مار کر مرکزی وزیر داخلہ کو آئینہ دکھایا۔
اس طرح کانگریس (آئی) کے علاوہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی جیسی دیگر بھارت نواز جماعتوں نے بھی بھارتی وزیر داخلہ کے دورے کا بائیکاٹ کر کے بی جے پی کی منفی کشمیر دشمن پالیسیوں اور کشمیر کی آئینی حیثیت و خصوصی حیثیت کے خاتمے پر غم و غصے اور نفرت کا اظہار کیا۔ یہ تو چلیں ان جماعتوں کی سیاسی مجبوری ہے کیونکہ انہوں نے ووٹ حاصل کرنا ہوتے ہیں۔ اس طرح کم از کم انہوں نے انگلی کٹا کر شہیدوں میں اپنا نام درج کرانے کی سیاسی کوشش کی تاکہ کل کلاں کو اپنے ووٹروں کو کہہ سکیں کے دیکھا ہم نے امیت شاہ کے دورے کا بائیکاٹ کیا ۔ کشمیر کی سابقہ آئینی حیثیت کی بحالی اور کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کی۔ بہرحال یہ سب ڈرامہ بازی اپنی جگہ، خود امیت شا ہ کو بھی اندازہ ہو گیا کہ مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں ابھی حالات اتنے سازگار نہیں ہیں جتنا وہاں کی بی جے پی کے رہنمائوں نے مرکزی کو بتائی اور اپنے نمبر بڑھائے۔
جموں کے جلسوں میں جنہیں کارنرمیٹنگ کہنا زیادہ مناسب ہے۔ ڈوگری پہاڑی گوجر اور بکر والوں کو پیسے دے کر ان کے ثقافتی طائفوں کو بلا کر خوب ناچ گانا ہوا۔ ڈھول باجے بجائے گئے مگر حاضری کم رہی جس کے بعد غیر حاضر سرکاری ملازمین کو جرمانہ اور معطلی کی سزائیں دی جا رہی ہیں۔ اس دورے کو عوامی دکھانے کے لیے جموں میں امیت شاہ ہندوئوں کے مندروں میں گئے تاکہ مذہبی طبقہ خوش ہو وہاں پوجا پاٹ میں حصہ لیا۔ سڑکوں ، تفریح گاہوں، سنیمائوں، تجارتی سنٹر کھولنے کی باتیں کی وہ بھی سیاسی بیان بازی کی حد تک عملی طورپر کوئی پروگرام نہیں دیا۔
اس کے بعد بھارتی وزیر داخلہ کشمیر پدھارے، جہاں حریت کانفرنس اور دیگر جماعتوں و تنظیموں کی طرف سے ان کی آمد پر احتجاجی ہڑتال کی اپیل پر مکمل شٹرڈائون تھا۔ کشمیر کے گلی کوچوں میں ہو کا عالم تھا جہاں صرف بھارتی فوجی یا آوارہ کتے مٹر گشت کر رہے تھے۔ اس پر بھارتی وزیر داخلہ خاصے سیخ پا ہوئے ۔ بارہ مولا اور سرینگر میں چھوٹے چھوٹے جلسوں سے خطاب میں خوب جی کی بھڑاس نکالی اور کہا کہ کشمیر سے ملی ٹینسی کا خاتمہ جلد کر دیا جائے گا۔ پاکستان کی بجائے بی جے پی سرکار کشمیر کے نوجوانوں سے بات چیت کر کے انہیں قومی دھارے میں لا کر ترقی و خوشحالی کا نیا دور شروع کرے گی۔ اب یہ کہتے وقت حالت یہ تھی کہ 9 لاکھ فوج سے بھی بھارتی وزیر داخلہ کی تسلی نہ ہوئی اور ان کے دورے کو باحفاظت بنانے کے لیے وادی کشمیر میں مزید فوجی دستے جو تازہ دم تھے منگوائے گئے۔ چپے چپے پر تلاشیاں لی جا رہی تھیں۔ سرکاری ملازموں کو زبردستی جلسے میں شرکت کا حکم تھا۔ وہ بھی جلسے میں پولیس اور سادہ لباس میں فوجیوں کے ساتھ سامعین کا ناٹک کر رہے تھے۔ کشمیر میں بھی امیت شاہ نے مرنے والے مسلمان پولیس افسر کی قبر پر جا کر پھول چڑھا کر کشمیریوں کو خوش کرنے کا ڈھونگ رچایا مگر اس پورے دورے میں وہ کسی عوامی وفد یا عوام سے نہیں ملے ہر وقت ان کے اردگرد سینکڑوں مسلح کمانڈو موجود رہتے جن کے جلو میں وہ ایک دو شہروں میں گئے اور خوفزدہ انداز میں ہی تقریر کا شوق پورا کیا۔
اس دورہ میں ایک مرتبہ کشمیریوں نے ثابت کیا کہ ان کا بی جے پی ، کانگریس کے حامی نیشنل کانفرنس یا پی ڈی پی جیسی ڈمی جماعتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ کشمیر کی قانونی حیثیت میں تبدیلی اور اس کے آئینی حیثیت کے خاتمے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ کوئی کشمیر بھارت کے ساتھ الحاق یا بھارت میں ضم ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ان کی بھارت سے علیحدگی کی تحریک پہلے بھی جاری تھی آج بھی جاری ہے اور بھارت سے علیحدگی تک جاری رہے گی۔ حریت کانفرنس میں باہمی اختلافات کے باوجود کشمیریوں کی نمائندگی کا حق ادا کر رہی ہے۔ یہ کشمیریوں کی انتھک جدوجہد کا ہی نتیجہ ہے کہ ایک طویل عرصے بعد امریکہ نے بھارت کی ناراضگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ریاست جموں و کشمیر کے لیے ’’آزاد جموں و کشمیر‘‘ کا استعمال کیا ہے۔ جس پر بھارتی حکمران تلملا رہے ہیں اور یہ اس وقت ہوا ہے جب بھارتی وزیر داخلہ مقبوضہ ریاست کے دورے پر ہیں اور بھارتی حکومت وہاں امن و امان کی دنیا کو جھوٹی کہانیاں سنا رہی ہے۔ دوسری طرف اسی دوران امریکی سفیر بھی آزاد کشمیر کا دورہ کر رہے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ کسی بدلتے ہوئے منظر کی دھندلی سی تصویر تو نہیں۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کے حل میں بھارت کے بعد سب سے بڑی رکاوٹ امریکہ ہے اگر وہ چاہے تو بھارت کو مشرقی تیمور اور دارقر کی طرح آسانی سے مقبوضہ کشمیر میں ریفرنڈم یعنی رائے شماری پر آمادہ کر سکتا ہے۔ جس کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں اصولی طور پر متفق بھی ہیں۔