پاکستانی عوام کیسی لیڈر شپ چاہتے ہیں؟

تاریخ گواہ ہے کہ جس ملک کے معاشی حالات تنزلی کی جانب گئے اور اسکے نتیجے میں بیروزگاری کے سبب جرائم نے معاشرے میں پنجے گاڑے، سیاسی قیادت نے متحد ہوکر عوامی مفاد کی بجائے سیاسی رسہ کشی کو ترجیح دی۔سیاسی جماعتوں کے گروہ در گروہ بٹ جانے سے انکی باہمی ہوا اکھڑ گئی۔ دفعتاً ان پر دشمن اقوام غالب آگئیں جنہوں نے اس ملک کے تشخص کو ملیا میٹ کرکے غلام بنا لیا۔ عرصہ دراز کی غلامی کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک پاکیزہ خطہ ''پاکستان'' عطا فرمایا تھا تاکہ ہم اپنے وعدوں کو سچ کرکے دکھا سکیں۔ مگر موجودہ دور کی سیاست اور سیاسی رہنماؤں کی حالت دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حق تعالی اپنی مخلوق سے ناراض ہے۔ دراصل ہم فکری جمود اور رواجی ذہن کی وجہ سے عوام ایک فرد واحد کو اپنا قائد اور نجات دہندہ مان کر اسی سے اپنے مقاصد اور مسائل کے حل کی توقعات وابستہ کرتے ہوئے نقصان سے دوچار ہیں۔ دلفریب نعروں سے یہ قیادت اپنے مفادات کے حصول میں مگن رہتی ہے۔ عوام ان نعروں کی گونج میں مفاد عامہ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شخصیت کے سحر میں گرفتار ہو جاتے ہیں ان شخصیات کی جھوٹی مشہوری کی آڑ میں ملک و ملت کی خدمت کے نام پر خوب استحصال ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے آج تک عوام اپنے استحصال سے بے خبر ہیں۔
وہ تازہ دم ہیں نئے شعبدے دکھاتے ہوئے 
عوام تھکنے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
سیاست کے اسی ماڈل کے نفاذ کی وجہ سے کچھ لوگ ووٹ ڈالنے کو اپنا فریضہ ہی تصور نہیں کرتے۔ یہ تاثر بن گیا ہے کہ عوام اس مفلوج سیاسی لیڈر شپ پر بجز حسرت، افسوس اور آہ و بکا کے علاوہ کیا کر سکتے ہیں؟ قارئین اس منظر نامے کی تبدیلی کے لیے نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت کی اشد ضرورت ہے۔
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا
جو دستِ قاتِل کو کاٹ ڈالے
جو دیں فروشوں کا دَم نکالے
جو ماؤں بہنوں کا ہو محافظ
جو وحشیوں کو لگام ڈالے
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا
یہ بات طے شدہ ہے کہ ہمارے ہاں لیڈر شپ کا فقدان ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کو اس وقت ایسے آئیڈیل لیڈر کی ضرورت ہے جو کسی مسیحا کی مانند زندگی کے ہر شعبے میں آدمیت کی رہنمائی کر سکے۔ صوبائی تعصب سے بالاتر ہو۔ کراچی سے کشمیر تک اگر سیاسی احکامات صادر کرے تو اس میں انتقامی سیاست کا ٹچ نہ ہو۔ تاریخ کے اوراق اگر پلٹائیں تو یہ حقیقت آشکار ہوگی کہ پہلی قومیں اسلیے تباہ ہوئیں کہ جب کوئی بڑا غلطی کا ارتکاب کرتا تو مختلف حیلوں بہانوں سے سزا سے بچ جاتا اور جب کوئی کمزور یا عام آدمی کسی فعل شنیع کا ارتکاب کرتا تو اس کی سرزنش کی جاتی۔ واضح رہے کہ اصولوں کی پاسداری اور حدود کے نفاذ میں تعلقات اور قرابت داری کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ اس کے علاوہ عوام بے حس حکمرانوں سے اکتا چکے ہیں ایسا لیڈر ہو جس کے دل میں رعیت سے ہمدردی ہو۔ قوم کی راحت کے لیے مضطرب و بے چین رہے۔ آفت کی گھڑی میں فوٹو سیشن کی فکر کی بجائے بے سہارا لوگوں کی امداد کرے۔ تاجر، زمیندار، مزدور اپنی اپنی جگہ مطمئن ہوں۔ ریاست مدینہ کا دعوی کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ حضرت عمرؓ فاروق کھجور کی چٹائی پر سوتے اور راتوں کو جاگ جاگ کر رعیت کی خبر گیری کرتے، ان کی ضروریات کو پورا کرتے۔ حتی کہ اپنی پیٹھ پر غلے کا بوجھ لاد کر رعایا تک پہنچاتے۔
پاکستان کو ایسے وزیراعظم کی ضرورت ہے جسے مبادیات و اساسیات کا علم ضرور ہو وگرنہ وہ عہدہ جسے بطور امانت سمجھ کر اس پر متمکن ہوا ہے… انصاف نہیں کر سکے گا۔ یہ بھی ضروری ہے کہ قائد کو قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے۔علم ودانش، معاشیات، مالیات، سیاسیات،اہل کتاب کے احکامات، یتیموں کی ولایت، قانون، ثقافت، تعلیم و تربیت، طب و صحت،فلاح و بہبود وغیرہ سے بھی آگہی رکھنا ضروری ہے تاکہ اقوامِ عالم میں اپنے ملک کے مسائل و حالات کو ایک مدبر سیاستدان کی طرح بیان کرے۔ ایسا مدبر حاکم جو مملکت کو ہر طرح بام عروج تک پہنچانے کی اہلیت رکھتا ہو۔ ملک کو ہر خطرے سے محفوظ رکھنے کا ذمہ دار ہو۔ اس کے ساتھ طیش و غضب میں آنے والا نہ ہو۔ آئے روز ایسی بات نہ کہے جس سے اختلافات کا ایک پہاڑ قائم ہو جائے اور جو وقت ملک و قوم کی خدمت کرنے کا ہو وہ پریس کانفرنس اور نتاروں کی نذر ہو جائے۔ حاصل کلام یہ کہ پاکستان اس وقت معاشی، سیاسی، سماجی، مذہبی لحاظ سے نازک دور سے گزر رہا ہے۔ عوام ایسا لیڈر چاہتے ہیں جو ایک مشفق قائد کی طرح ان کی رہنمائی کرے۔ ان کے بکھرے شیرازے کو ایک لڑی میں پروئے تاکہ ملک میں امن و سکون بحال ہو سکے۔

ای پیپر دی نیشن